الائیڈ بینک پنشنرز کے حق میں عدالتی فیصلوں کو روندا جا رہا ہے

یہ طے شدہ بات ہے کہ بینکوں کو ایک ایسا ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کی بنیاد اعتماد پر قائم ہوتی ہے اس لیے انھیں صادق اور امین ادارے ہونے کا درجہ حاصل ہوتا ہے کیوں کہ بینک لاکھوں لوگوں کی امانتوں کے امین ہوتے ہیں اور ان کا سچا یا صادق ہونا بھی ایک لازمی امر ہے۔ کیا اسٹیٹ بینک کی نظر میں بینکوں کا صادق و امین ہونا ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر کیا کسی بینک کے مالک کو اپنے کھاتہ داروں اور اپنے ملازمین کی امانتوں میں خیانت کرنے کا حق حاصل ہے، جس کا جواب یقینا ”نہیں“ ہوگا۔ اگر کوئی بینک کا مالک اپنے ملازمین کو غیر قانونی طریقے سے مالی نقصان پہنچاتا ہے یا ان کے جائز مالی حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو کیا وہ امین کہلانے کا مستحق ہے بالکل نہیں۔ اگر بینک کا مالک امین نہیں ہے تو کیا اسے بینک چلانے کی اجازت ہونی چاہیے؟ اس کا سو فیصد یہ جواب ہوگا کہ ایسا شخص جو صادق اور امین نہ ہو اسے بینکاری کے امور چلانے کا قطعی اختیار نہیں لیکن یہاں کیا ہو رہا ہے کہ ایک شخص جو صادق اور امین کے درجے پر کسی طور بھی پورا نہیں اترتا اسے بینک چلانے کا لائسنس دے رکھا ہے۔ پوری دنیا میں یہ طے شدہ اصول ہے کہ اگر کسی ادارے سے کوئی شخص ریٹائر ہوتا ہے تو اسے جس تاریخ کو وہ ریٹائر ہوتا ہے اس تاریخ سے ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات ادا کی جاتی ہیں لیکن الائیڈ بینک ایک ایسا بینک ہے جو اس عالمی اصول سے انحراف کرتے ہوئے اپنے ریٹائر ملازمین کو تاریخ ریٹائرمنٹ کے بجائے اپنی مقرر کردہ ایک تاریخ یعنی 30 جون 2002 کے حساب سے ریٹائرمنٹ کی تمام مراعات ادا کرنے کی پہلی بددیانتی کر رہا ہے، اس کے بعد ملازمین کا پنشن فنڈ اکاؤنٹ جو ایک ٹرسٹ اکاؤنٹ ہے میں غیر قانونی طریقے سے بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ بینک لین دین کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس ٹرسٹ اکاؤنٹ کا آڈٹ کرنے کے لیے وفاقی محتسب نے باقاعدہ ایک نظم کے تحت اسٹیٹ بینک کو ہدایت جاری کی تھی لیکن آج تک اس اکاؤنٹ کے آڈٹ کرنے کے حکم کی تعمیل نہیں ہو سکی ہے۔ ریٹائرڈ ملازمین کے پنشن فنڈز کے ٹرسٹ اکاؤنٹ میں رقم کی لین دین امانت میں خیانت کے زمرے میں آتی ہے، کیا ایسا کرنے والا صادق و امین کہلائے جانے کا مستحق ہے۔ یہ بینک ملازمین کے گروپ انشورنس اور ای او بی آئی کی منہا شدہ رقوم کو ہڑپ کیے بیٹھا ہے پھر بھی دعویٰ ہے پارسائی کا۔ آگے چلیے! مذکورہ بینک کے خلاف معاملہ عدالت میں جاتا ہے جہاں پشاور ہائی کورٹ یہ فیصلہ صادر فرماتا ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کو ان کی تاریخ ریٹائرمنٹ سے تمام واجبات کی ادائیگی یقینی بنائی جائے لیکن بددیانتی کا مظاہرہ ملاحظہ فرمائیے کہ الائیڈ بینک کا یہ مالک اس فیصلے کو ماننے سے بھی انکار کر دیتا ہے، اور ملک کی سب سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی جاتی ہے، جہاں ایک بار پھر بینک کو منہ کی کھانی پڑتی ہے اور عدالت عالیہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم سناتی ہے اور پنشنرز کو ریٹائرمنٹ کی تاریخ سے تمام واجبات ادا کرنے کا حکم دیتی ہے، یہ ہر طرح سے ایک فائنل فیصلہ قرار پاتا ہے جسے بینک کو بلا کسی چوں چراں کے تسلیم کرلینا چاہیے تھا لیکن بڑی عدالت کے معزز جج صاحبان کا فیصلہ بینک مالکان کو پسند نہیں آیا جس کے بعد نہ صرف وہ اپیل، نظر ثانی کی اپیل بلکہ اعتراضات پر مبنی تمام اپیلوں کا عدالتوں کی طرف سے مسترد، مسترد، مسترد کا جواب ملا اس کے باوجود بینک مالکان غریب اور مظلوم ریٹائرڈ ملازمین پنشن فنڈز میں رکھی امانت کو ہضم کرنے کی کوششوں میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ بینک مالکان غریب پنشنروں کے ٹرسٹ اکاؤنٹ جس میں اربوں روپے رکھے ہیں پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں اور ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ سنگدلانہ جانی دشمنی کے جرم میں ملوث ہیں کیوں کہ بینک مالکان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کئی سو پنشنرز کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونے پڑے اس کے علاوہ ظالم بینک مالکان کو نہ اللہ کا خوف ہے نہ عدالتی فیصلوں کا احترام، نہ بینک کے ہزاروں پریشان حال ریٹائرڈ ملازمین کی تنگ دستی اور معاشی پریشانیوں کا احساس ہے، نہ ان دولت کے پجاریوں جن کے دل میں دل نہیں بلکہ دولت دھڑکتی ہے ان ظالموں کو غریبوں، بیواؤں کی حالت زار پر کوئی ترس آتا ہے، جنھیں چند سو روپے کی غیر قانونی پنشن دے کر خود ”سیٹھ“ بنے بیٹھے ہیں اور اسٹیٹ بینک نے ایسے لوگوں کو بینکاری کے کاروبار کی اجازت دے رکھی ہے جو نہ صادق ہیں نہ امین ہیں اور کسی طرح بھی اس قابل نہیں ہیں کہ انھیں بینکاری کے کاروبار کی اجازت ملنی چاہیے۔ اسٹیٹ بینک اگر الائیڈ بینک کی ہونے والی نجکاری کی فائل کھولنے کی زحمت کر لے تو سب کچھ سامنے آجائے گا کہ کس مشکوک طریقے سے یہ سب کام ہوا اور کس طرح 14 ارب روپوں میں موجودہ مالکان کو بینک پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا۔ درحقیقت یہ لوگ ”مجھے کیوں نکالا“ فیم ڈاکو کے چیلے ہیں اور اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پنشنروں کے اربوں روپوں پر زور زبردستی ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ وکیلوں کو بھاری رقوم دے کر پنشنروں کو نہ صرف عدالتی جھگڑوں میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں بلکہ غریب ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کے معزز گورنر صاحب سے گزارش ہے کہ وہ الائیڈ بینک کے ریٹائرڈ ملازمین کے ساتھ بینک مالکان کے غیر اصولی، غیر انسانی رویے کا نوٹس لیں، ان کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں بینکاری کے امور انجام دینے سے روکا جائے اور الائیڈ بینک کے پریشان حال پنشنروں کو ان کا جائز حق دلوانے کے سلسلے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

کوئی تبصرے نہیں