صفائی نصف ایمان ہے

Syeda Shireen Shahab

دنیا کا ہر مسلمان باخوبی اس حقیقت سے واقف ہے کہ ہمارے دین میں صفائی کو نصف ایمان کا درجہ حاصل ہے مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بات صرف اپنے اردگرد اور جسمانی صفائی پر آکر مکمل ہو جاتی ہے؟ میری عقل و فہم کے مطابق معاملہ اتنا مختصر ہرگز نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بھی فرمانِ مبارک حکمت اور خیر سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ اس پاک ذات کے ہر انعام و نوازش کے پسِ پشت گہرائی و افادیت چھپی ہوتی ہے جو جاننے کی جستجو رکھنے والے اس کے بندوں پر تھوڑی سی محنت کے بعد ظاہر ہوجاتی ہے۔ شرط بس اتنی سی ہے کہ بندے کا اصل ارادہ مقصد کھوجنا ہو، بے ادبی کرنا نہیں۔

حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں ”صفائی نصف ایمان ہے۔“ لفظ صفائی کے کئی معنی نکلتے ہیں دراصل طہارت، پاکیزگی، نکھار، سادگی، صداقت اور بالکل خالی ہوجانا ”صفائی“ کے زمرے میں ہی لیے جاتے ہیں۔ ہم جب معنی کی وضاحت سے آگے بڑھتے ہیں تو یہ ایک لفظ پانچ حصوں میں بٹ جاتا ہے، ”جسمانی، روحانی، ذہنی، زبان اور ماحول کی صفائی۔“ انسان کے اندر ایمان کی موجودگی ہی اسے مسلمان بناتی ہے اور جب بات اسی ایمان کے نصف مکمل ہونے کی آئے تب اس پر عمل کرنا لازم و ملزوم ہوجاتا ہے۔

ہم اپنے ہوش سنبھالنے سے بڑوں اور مذہبی علم و فراست سے آشنا شخصیات سے سنتے آئے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے، تب یہ بات دل کو بے حد بھاتی تھی اور طبیعت کو قرار بخشتی تھی کہ محض صفائی ستھرائی ایمان کو آدھا مکمل کر دیتی ہے۔ ہماری بے وقوفی، نادانی اور بھولپن نے کبھی اس چھوٹے سے جملے کی گہرائی میں ہمیں جانے ہی نہیں دیا۔

انسان دنیا میں قدم رکھتے وقت فرشتے کی مانند ہوتا ہے، پاک صاف اور نکھرا ہوا، اس جہانِ فانی کی آلودہ ہوا سے بالکل بے نیاز، دل میں میل ہوتا ہے نہ روح میں غلاظت۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو خطا کا پتلا بنایا ہے مگر ہم جیسے جیسے دنیا میں قدم جماتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو پروان چڑھاتے ہیں گناہ کی مورت بن بیٹھتے ہیں۔

ذرا سوچیے آخر کیا ہے یہ زندگی؟ بس پانی کا ایک بلبلا، اس کے پیچھے ہم اپنی ابدی زندگی برباد کرنے پر تل جاتے ہیں؟ انسان کی ذات میں صفائی کا دخل درحقیقت جسمانی صفائی سے ہوتا ہے، یہ نبی کریم کی سنت بھی ہے۔ جسم کی صفائی کے بعد روح کی صفائی انسان کے لیے لازمی ہے کیونکہ اگر کسی فرد کی روح اُجلی ہونے کے بجائے میلی ہے اور اس پر منفیت طاری ہے تو اس کے آگے کے معاملات میں بگاڑ پیدا ہونا لازم ہے۔ انسان جسمانی اور روحانی صفائی کا اہتمام کر لے تو ذہن کی صفائی اس کی منتظر ہوتی ہے، انسان کا ذہن صرف اسی صورت صاف مانا جاتا ہے جب وہ ہر طرح کے پراگندہ خیالات سے عاری ہوتا ہے اور وہاں دوسروں کے لیے بری سوچ ہوتی ہے نہ گناہ کرنے کا کوئی خیال ہوتا ہے۔

جس فرد کا جسم، روح اور ذہن صاف ستھرا ہو تو اس کی زبان میں صفائی خود بخود آجاتی ہے لیکن اگر کسی انسان کی زبان ہی گندی ہو تو پھر کسی طرح کی صفائی بھی اسے ایک برا آدمی بننے سے نہیں روک سکتی ہے۔ سب سے آخر میں آتی ہے ماحول کی صفائی جہاں سے خرابی کی شروعات ہوتی ہے ساتھ وہیں سے اس کا اختتام بھی ممکن ہے۔ ماحول ہی مثبت اور منفی اثرات کو جنم دیتا ہے۔ ماحول صاف، نکھرا اور معطر ہو تو جسم بھی توانا و پاک ہوتا ہے، روح بھی شفاف ہوتی ہے، ذہن مثبت خیالات کے نور سے جگمگاتا ہے اور تو اور زبان سے بھی پھول جھڑنے لگتے ہیں اس کے برعکس گندا ماحول صرف برائی کو پروان چڑھاتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ صفائی کے ذریعے نصف ایمان کی تکمیل حقوق العباد کے راستے سے گزر کر ہوتی ہے لہٰذا ربِ ذوالجلال نے حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے اپنے بندوں پر خاص زور دیا ہے۔ سورة البقرہ کی آیت 83 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ”لوگوں کے ساتھ اچھی گفتگو کرو۔“ اس کے علاوہ سورة الحجرات آیت 11 میں ارشادِ خداوندی ہے ”اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کوئی قوم دوسری قوم سے مذاق نہ کرے، اس کو حقیر نہ جانے، ایسی گفتگو نہ کرے جس سے اس کی تذلیل ہو، اور نہ عورتوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرو، کیا خبر تم جن کو حقیر سمجھتے ہو، اللہ کے نزدیک وہ اعلیٰ ہو۔

قرآن شریف میں کئی مقامات پر خداوند کریم نے دنیا کے باسیوں کو حقوق العباد کو پورا کرنے کی خاص تلقین فرمائی ہے اور اس بارے میں بے شمار احادیثِ مبارکہ بھی موجود ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے حقوق العباد کا آسان راستہ چننے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ہمارے پیارے نبی کا ایک فرمان ہے، ”مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔“ (مشکوة شریف) انسان کا اگر ظاہر صاف ہو، وہ طہارت و پاکیزگی کا اہتمام بھی کرتا ہو مگر اس کی باطنی غلاظت سے دوسرا انسان مشکل کا شکار ہوجائے تو ایسی صفائی ایمان کو فائدہ نہیں الٹا نقصان پہنچاتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں