آزادی کا حقیقی مفہوم

Syeda Shireen Shahab

14 اگست کو پاکستانیوں نے بڑے جوش و جذبے کے ساتھ آزادی کا یوم منایا۔ اس ملک میں عام شہری کے طور پر زندگی بسر کرنے اور خود کو آزاد تصور کرنے والے اپنے قارئین سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سچ بتائیں کیا آج آپ اور ہم اس ملک میں آزاد ہیں؟

قیامِ پاکستان سے قبل ہم انگریزوں کی غلامی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے اور ہمیں ہمہ وقت خطرہ انتہا پسند ہندوؤں سے تھا جبکہ 1947 کے بعد سے مسلمانوں پر مسلمان آقا مسلط ہوئے بیٹھے ہیں اور ہماری جان و مال اور عزت و آبرو کو اپنوں سے ہی چھن جانے کا اندیشہ لاحق ہے۔ اس سرزمین پر محض طاقتور آزاد ہیں چاہے وہ طاقت پیسے کی صورت میں ہو یا ہتھیار اور اختیار کی شکل میں حاصل ہو، کمزور اور شریف انسان برِصغیر میں محکوم تھا اور پاکستان میں بھی اُس کی وہی حیثیت ہے۔ آقا کے تبدیل ہونے کو آزادی نہیں کہتے بلکہ غلام کو اختیار عطا کرنے کا نام آزادی ہے، جو نہ آج ہمارے پاس موجود ہے نہ ماضی میں تھا پھر ہم کس لحاظ سے خود کو آزاد مان لیں؟ پاکستان کو بنانے والوں کی نیت اچھی، لگن سچا اور ارادہ نیک تھا پھر غلطی کس سے اور کہاں سرزد ہوگئی کہ یہ ملک علامہ محمد اقبال کے خواب کی زندہ جاوید حقیقت بن پایا نہ قائدِ اعظم کے تصور کے عین مطابق ایک آزاد، خود مختار اور پُرامن ریاست۔

پاکستان 76 سال پہلے معروض وجود میں آیا تھا، عام طور پر کوئی بھی ملک اتنے طویل عرصے میں ترقی کی چوٹیوں پر پہنچ کر اپنے قومی اداروں کی شاندار کارکردگی سے لطف اندوز ہورہا ہوتا ہے۔ ایسے ملک کی عوام جدید سہولیات سے مزین زندگی کا مزہ لے رہی ہوتی ہے اور وہ ملک دونوں ہاتھوں سے اندرون و بیرونِ وطن لڈو سمیٹ رہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو اپنی حماقتوں کے خوفناک نتائج سے بھری ایک لمبی فہرست دیکھنے کو ملے گی، جو ہمیں اس دل خراش حقیت سے واقفیت کروائے گی کہ ہم نے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا وہاں سے ایک انچ آگے نہیں بڑھے بلکہ اُلٹا پیچھے چلے گئے ہیں۔ سات دہائیاں کوئی کم عرصہ نہیں ہوتا اس میں بہت کچھ اچھا کیا جاسکتا تھا، پاکستان کے بعد آزادی حاصل کرنے والے ممالک ترقی کے میدان میں ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں جبکہ دوسری جانب ہم اُس میدان کے کسی کونے میں بھی نظر نہیں آرہے ہیں۔

ہم پاکستانی اپنے وطن کو مملکتِ خداداد بھی کہتے ہیں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ملک اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لیےتحفہ ہے جو اُس پاک ذات نے بانیانِ پاکستان کو وسیلہ بناکر ہمیں عطا کیا تھا۔ اس بات میں کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ یہ سرزمین ربِ کائنات کی بے شمار نعمتوں سے مزین ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت وعدے کے مطابق کئی علاقوں کا الحاق شرارتاً پاکستان کے ساتھ ہونے نہیں دیا گیا تھا کیونکہ ہمارے مخالفین کو غلط فہمی تھی کہ یہ علیحدگی وقتی ہے۔ ہمارا قابلِ ستائش امر ہے کہ برے سے برے ملکی حالات میں بھی اپنے مخالفین کی سوچ کو سچ ثابت ہونے نہیں دیا۔ ایک سب سے سنگین غلطی جو ہم سے سرزد ہوئی وہ یہ تھی کہ جو کچھ 1947 میں پایا اُس کو جو نہیں حاصل کر سکے کے پیچھے فراق دلی سے قربان کردیا۔ اپنے قیام سے ہی یہ ملک ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا تھا جو کہ اب تک حالتِ سفر میں ہے، اس طویل خواری کے نتیجے میں کامیابی ہمارے ماتھے کا جھومر بن پائی کہ نہیں آج آپ سب کے سامنے موجود ہے۔

پاکستان اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہا ہے، مہنگائی، بےروزگاری، انتہا پسندی، بد امنی اور غربت اپنی عروج پر ہیں اور پچھلے کچھ سالوں سے خوشحال بہت تیزی سے بدحالی کی جانب رواں دواں ہے۔ حکومت اپنی مدت مکمل کر چکی ہے اور نئے حکمرانوں کے آنے میں تھوڑا وقت درکار ہے مگر حالات کے بہتر ہونے کی کوئی ہلکی سی کرن بھی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ پاکستان کے عموماً نوجوان ملکی حالات سے بیزار ہوکر اپنے کمزور گھونسلوں سے نکل کر پکے گھروندوں کی جانب اُڑان بھر رہے ہیں لیکن برسرِ اقتدار طبقہ نوجوانوں کی اس خود ساختہ ہجرت پر کسی قسم کی تشویش کا شکار ہی نہیں ہے۔ نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اُن کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے اور ہم تو ویسے ہی ناکامی کے اندھیروں سے گزر رہے ہیں۔ اب ہمارے نوجوان بھی پردیس سدھار جائیں گے تو حال کے ساتھ ہمارا مستقبل بھی سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا، کاش ماضی کی غلطیوں کو مٹا کر حال کو بہتر بنانا ممکن کے ساتھ آسان بھی ہوتا۔

76 سال پہلے مسلم لیگ کی قیادت نے جب برصغیر کے مسلمانوں کو پاکستان کے وجود کا خواب دکھلایا تب اُس میں شخصی آزادی کے ساتھ ساتھ مذہبی آزادی کا وعدہ بھی موجود تھا۔ پاکستان کے قومی پرچم کا سفید حصہ یہاں آباد اقلیتوں کے اس دھرتی سے تعلق کی ترجمانی کرتا ہے، قائدِ اعظم نے پاکستان بننے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں مذہبی آزادی کو اس ملک میں عام کرنے کا برملا اعلان کیا تھا۔ افسوس قائد کے دنیا سے رخصت ہوتے ہی ہم نے پاکستان کو مذہبی انتہا پسندی اور لسانیت کی بھٹی میں جھوک کر سب سے پہلے ملک کے مشرقی خطے کو مغربی حصے سے جدا کیا۔ ایسا کرکے بھی جب ہم کو سکون نہ ملا تو ملک کے واحد رہ جانے والے ٹکڑے پر مذہبی بنیادوں پر اتنی تقسیم پیدا کردی کہ آج ایک فرقے کا مسلمان دوسرے فرقے کے انسان کو مسلمان تسلیم کرنے پر راضی ہی نہیں ہے۔ ملک میں اخوت کا فقدان بڑھتا چلا جارہا ہے اور اگر اب بھی معاملات کو قابو نہ کیا گیا تو حالات بد سے بدتر ہوجائیں گے۔

اس پاک سرزمین پر اکثریت محفوظ ہے نہ اقلیت، طاقتور طبقہ جب چاہے جسے چاہے تعصب کا نشانہ بنا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ روٹی مہنگی اور انسانی جان سستی ہوتی جا رہی ہے۔ پاکستان کو اپنوں اور غیروں دونوں نے بری طرح سے روند ڈالا ہے، اس میں ہمارا ہی قصور ہے کہ چند ڈالروں کی خاطر تباہی کو گلے لگا بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی عام عوام سے کیا گناہ سرزد ہوا کہ ہے اُنھیں ہر روز آزمائشوں اور امتحان سے گزر کر اپنی جانوں کے تحفظ کی نت نئی حکمتِ عملی تشکیل دینی پڑ رہی ہے۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پاکستانی یہ سوال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اس ملک میں زندگی گزارنے کے بعد کیا حشر میں بھی ہم سے حساب لیا جائے گا؟ پاکستان کو پھلتے پھولتے دیکھنا اس وطن سے محبت کرنے والے ہر فرد کی تمنا ہے اور آرزو بھی، ہم پاکستانی گھٹن زدہ ماحول سے نکل کر کھلی فضا میں آزادی کے ساتھ سانس لینا چاہتے ہیں، کیا ایسی خواہش کرنا ہمارا بنیادی حق نہیں ہے؟

کوئی تبصرے نہیں