کیا آزاد قومیں ہم جیسی ہوتی ہیں؟

Azad Qaum

Ayesha Hina

جوں جوں جشن آزادی کے دن قریب آتے جا رہے ہیں دل و دماغ میں ایک ہلچل سی مچی ہے کہ! کیا واقعی ہم آزاد ہو چکے ہیں؟ ایک وقت کو سوچتی ہوں کہ کیا زندہ و آزاد قومیں ہم جیسی ہوتی ہیں۔ زندہ قومیں تو وہ ہیں کہ جن کے بچے ایک ہاتھ میں فیڈر اور ایک ہاتھ میں پتھر اٹھائے دشمن کے آگے یوں کھڑے ہیں کہ گویا کہہ رہے ہوں کہ ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو یہیں زندہ درگور کردیں گے۔

آزاد قومیں تو وہ ہیں جو 71 برس بھارتی تسلط کے ظلم و ستم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہی ہیں اور ہم 77 سال سے صرف قرض اور بھیک کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہیں اور اس بوجھ کو اٹھاتے اٹھاتے ہماری سوچیں بھی سلب ہوچکی ہیں اور ہماری زبانیں گنگ۔ یہاں تک کہ اپنے حقوق کے لیے بھی آواز اٹھانا بھول چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری روح تو کب کی پرواز کرگئی ہے اب صرف جسم بقید حیات ہے اور اس کو صرف روٹی، کپڑا اور مکان چاہیے، چاہے کسی بھی قیمت پر ہو۔ ہم الحمد للہ ایٹمی پاور تو بن گئے مگر اس کا استعمال ہمارے اختیار میں نہیں۔ ہمارے ملک میں قدرتی گیس موجود ہے لیکن ہمیں میسر نہیں۔ بجلی ہم خود بناتے ہیں لیکن ہمیں ملتی نہیں۔ ڈیم ہمارے پاس، مگر بوند بوند کو ترستی ہے قوم۔ کیا یہ آزادی ہے؟

افسوس تو اس بات کا ہے ہمارا بچہ بچہ اس قرض میں ڈوبا ہوا ہے جو اس نے لیا بھی نہیں اور جنھوں نے لیا ہے وہ عیش و عشرت میں مگن ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہم نے بچپن سے یہی سنا ہے کہ ”مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“ ہم کیسے بھائی ہیں جو اختیارات رکھنے کے باوجود اپنے مسلمان فلسطینی اور کشمیری بھائیوں کی مدد نہ کر سکے۔

ذرا سوچیں کہ اگر دشمن ہم پر حملہ آور ہو جائے تو کیا پھر بھی ہم اپنے آقاؤں کی اجازت کے منتظر رہیں گے، اپنا دفاع نہیں کریں گے؟ ہمارا گرین پاسپورٹ دنیا بھر میں ہماری رسوائی کا سبب بن چکا ہے، اسے دیکھ کر دنیا ہمیں صرف دہشت گرد اور بھکاری ہی سمجھتی ہے۔ ہم وہ قوم بن چکے ہیں کہ اگر حکومت وقت آج اعلان کر دے کہ کل سے پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا تو یہ قوم اپنے تمام ضروری کام چھوڑکر آج ہی پٹرول پمپ کے باہر قطار لگا لے گی جبکہ ضرورت اس بات کی ہے اپنا عیش و آرام چھوڑ کر احتجاجاً پیدل سفرکریں اور اپنا حق منوائیں، دکھا دیں کہ آپ ایک زندہ قوم ہیں جنھیں گاڑیوں کی ضرورت نہیں۔ لیکن نہیں ہم تو غلام بن چکے ہیں۔ کس کے؟ اپنے عیش کے ، اپنے آرام کے، اپنے نفس کے جو ہمیں آزاد ہونے ہی نہیں دیتا۔

1947 میں ایک آزاد علیحدہ وطن کیا صرف اسی لیے حاصل کیا گیا تھا کہ اس میں عیش و عشرت میں کھو کر دنیا میں محو ہو جائیں اور اپنا اصل مقصد بھول جائیں، یہ بھول جائیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا، پر افسوس ہم نے تو اپنے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی دفنا دیا۔ جس طرح آج سے 76 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دے کر آنے والی نسلوں کو آزاد کرایا تھا اسی طرح آج دوبارہ یہ وطن ہم سے قربانیاں مانگ رہا ہے، تو آئیں مل کر اپنی آنے والی نسلوں اور اپنے ملک کے لیے قربانیاں دیں اور پھر سے اپنے آپ کو اور اپنے وطن کو سامراجی قوتوں سے آزاد کرائیں اور غلامی کی اس زنجیر کو توڑ کر پھر سے آزاد ہو جائیں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں آیندہ آنے والے جشن آزادی پر واقعی آزاد ہو جائیں اور پورے جوش و ولولے کے ساتھ جشن آزادی منا سکیں اور کہیں کہ:

ہم زندہ قوم ہیں، پائندہ قوم ہیں

ہم سب کی ہے پہچان

ہم سب کا پاکستان، پاکستان

کوئی تبصرے نہیں