پارہ چنار میں آخر کیا ہوا؟
پاکستان کے ضلع کرم کے صدر مقام پارہ چنار میں چند روز قبل جو قیامت صغریٰ برپا ہوئی آخر اُس کی بنیادی وجہ کیا بنی اور وہاں ایسا پہلی بار ہوا یا ماضی میں بھی خونریزی کے حوالے سے اس قدر شدید نوعیت کے واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں؟
پارہ چنار کے حالاتِ حاضرہ
کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اُس علاقے کی تاریخ اور محل وقوع کو جاننا اہم ہے۔ پارہ
چنار پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع سر زمینِ پاک کا وہ حصہ ہے جس کے تین اطراف
افغانستانی مٹی سے جُڑے ہوئے ہیں۔ اس کو اگر پاکستان اور افغانستان کی سرحدی راہداری
کہا جائے تو بالکل غلط نہیں ہوگا، یہاں سے افغانستانی دارالخلافہ کابل محض 110 کلومیٹر
کے فاصلے پر ہے۔ پارہ چنار صوبہ خیبر پختونخوا میں سال 2018 میں شامل ہوا، اس سے قبل
یہ فاٹا (قبائلی علاقہ جات) سے منسلک تھا۔
24 مئی 2018، پاکستان کی قومی اسمبلی میں
229-1 کی بھاری اکثریت سے پچیسویں آئینی ترمیم کے لیے ایک بل منظور ہوا، جس کے تحت
فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کردیا گیا۔ اس انضمام کا مقصد ملک میں امن و امان
کا قیام اور ترقی کی راہ ہموار کرنا تھا مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات ثابت ہوا۔ پاکستان
کی77 سالہ تاریخ میں چودہ مرتبہ پارہ چنار میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے
اور 1980 سے موجودہ وقتوں تک وہاں چھ ہزار سے زائد افراد کو بے دردی سے ہلاک کیا جا
چکا ہے۔ پارہ چنار کے مقامی لوگ مختلف قبائل میں بٹے ہوئے ہیں اور یہ تمام قبیلے پچھلے
چار سو برس سے یہاں آباد ہیں۔ وہاں کا مقامی اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں جاتا ہے نہ پاکستان
کے دیگر صوبوں و اضلاع کے شہری یہاں مستقل سکونت اختیار کرسکتے ہیں۔
ضلع کرم تین ہزار، تین سو
اسّی مربع کلومیٹر پر محیط پاکستان کا واحد قبائلی علاقہ ہے جہاں اہلِ تشیع یا فقہ
جعفریہ سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت رہائش پذیر ہے۔ سال 2017 کے مردم شُماری میں
وہاں کی آبادی355916 افراد پر مشتمل ریکارڈ کی گئی تھی، جس میں 85 فیصد سنی مسلمان
اور باقی 24 فیصد شیعہ مسلمان بتائے گئے تھے۔ شرح خواندگی کی بات کی جائے تو وہ 94
فیصد ہے لیکن یہ تعلیم یافتہ مردوں کے حوالے سے مرتب کیا گیا ڈیٹا ہے کیونکہ عورتوں
کو قبائلی علاقوں میں شاذونادر ہی پڑھانے، لکھانے اور باشعور بنانے کا رجحان پایا جاتا
ہے۔ پاکستان کے اس خطے کا سیاسی درجہ حرارت عموماً گرم ہی رہتا ہے، حکومتی رٹ نہ ہونے
کے برابر ہے، ہر قبائلی علاقے کی طرح یہاں بھی جرگہ سسٹم رائج ہے ساتھ چاروں طرف بھانت
بھانت کے اسلحے کی ریل پیل ہے، چونکہ ضلع کرم پہاڑی علاقہ ہے، سونے پہ سہاگا وہاں ہمارے
ملک کی جغرافیائی حدود ختم ہوتی ہے اور بالکل پڑوس میں وہ ریاست ہے جس سے کبھی ہم روٹھ
جاتے اور کبھی وہ ہمیں بیگانوں سے تشبیہ دینے لگتی ہے۔ کچھ آب و ہوا اور ماحول کا اثر
ہے، باقی پہاڑوں، چٹانوں کی تاثیر کہ وہاں کا ہر آدمی اپنے آپ میں ایک جنگجو ہے۔
پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ
کیا جائے تو قومی سطح پر لیے گئے غلط فیصلوں کی ایک لمبی فہرست دیکھنے کو ملے گی، جنہوں
نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اسی طرح کا ایک فیصلہ تھا امریکا اور سوویت
یونین کے مابین افغان سرزمین پر ہونی والی جنگ میں امریکی لابی کا حصہ بننا اور پاکستان
سے مجاہدین تیار کر کے افغانستان بھیجنا۔ یہیں سے شروعات ہوئی اسلامی جمہوریہ پاکستان
میں انتہا پسندی کی، جس کے نتیجے میں پیدا ہوئے طالبان۔
اُس وقت اُٹھایا گیا غلط
سمت کی جانب ایک قدم اب تک ملک میں تباہی پھیلا رہا ہے۔ پورے پاکستان میں چلنے والی
منفی ہوا سے پارہ چنار کیسے محفوظ رہ سکتا تھا جبکہ یہی مجاہدین کی افغانستان آمدورفت
کے لیے گزرگاہ بنا ہوا تھا اور یہیں انھوں نے نفرت کے بیچ بوئے جو فرقہ وارانہ لڑائیوں
کے تناور درخت میں تبدیل ہوگئے۔ پارہ چنار کے نواحی علاقے نوشہرہ کے دو دیہاتوں میں
رہنے والے قبیلوں کے درمیان انگریز راج کے زمانے سے ہی تقریباً سو کنال زمین کی ملکیت
کا تنازعہ موجود ہے جو ہر تھوڑے عرصے بعد سنگین شکل اختیار کر لیتا ہے۔ سال 2007 میں
ان لڑائی جھگڑوں نے اتنی خطرناک صورتحال پیدا کردی تھی کہ پارہ چنار کا علاقہ کچھ عرصے
کیلئے پاکستان سے علیحدہ ہوگیا تھا اور وہاں کے رہائشی ضرورت پڑنے پر افغانستان کا
چکر کاٹ کر پاکستان میں داخل ہوتے تھے۔
پچھلے ماہ جولائی میں پارہ
چنار میں اُسی قدیم زمینی تنازع نے ایک بار پھر سے سر اُٹھایا جس کے باعث ۳۴ قیمتی جانیں ضائع ہوئیں اور ۰۵۱ سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے۔ مرنے
والوں میں ۵۳
کا اہلِ تشیع
قبائل جبکہ آٹھ کا اہلسنت قبائل سے تعلق تھا۔ لڑائی کے دوران بھاری اسلحے کا بے دریغ
استعمال کیا گیا جن میں موٹر شیلز، راکٹ لانچرز، مختلف اقسام کی پستولیں، تیز دھار
چھریاں شامل تھیں۔ یوں تو جائے وقوعہ سے زیادہ وڈیوز منظر عام پر نہیں آئیں مگر جو
ایک آدھ وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا وہ رونگھٹے کھڑے کرنے اور دل دہلانے کے لیے کافی
تھی۔ کئی روز چلنی والی لڑائی مقامی جرگے کے ”فائر بندی“ حکم نامے کے بعد تھم چکی ہے
مگر مستقبل میں بھی یہ تھمی رہے گی اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے۔
آخر اس مسئلے کا مستقل حل
کیا ہے، کیا یہ علاقہ ہمیشہ اپنی ہی لگائی آگ میں جلتا اور اپنوں کو جھلساتا رہے گا؟
پاکستان کی حکومت کو چاہیے ضلع کرم سمیت تمام قبائلی علاقوں کے مسائل کو ملکی عدالتوں
میں سارے فریقین کو اعتماد میں لے کر حل کرائے۔ وہاں کے مقامی افراد کی مدد سے امن
و امان کی صورتحال کو بہتر بنائے، سیاحت کو فروغ دے اور اسلحے کا جڑ سے خاتمہ کرے۔
پارہ چنار سے افغانستان جانے
والے راستوں پر ہونے والی غیر قانونی انسانی آمدورفت اور اسلحے، بارود کی اسمگلنگ کی
روک تھام کیلئے ٹھوس اقدامات اُٹھائے۔ وہاں تعلیم کو عام کرے جس سے لوگوں میں شعور
اُجاگر ہو اور وہ بنا سوچے سمجھے باہر والوں کی باتوں میں آکر اپنے مسلمان بھائیوں
کی جان لینے سے گریز کریں۔ ہمارے ملک کی سرحدیں محفوظ ہونگی، عوام خوشحال ہوگی، صرف
تبھی اس ملک کے چاروں کونوں سے پاکستان زندہ باد کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دے سکتی
ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں