آزادی سے غلامی تک جنم لیتے سوالات

Jang e Azadi, Sadam Sagar

تحریر: صدام ساگر

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی

لال چند فلک کا یہ خوبصورت خیال ہمیں پاکستان سے محبت، لہو کا رشتہ نبھانے اور خوشبوئے وفا کا درس دیتے ہوئے ایک ایسے دن کی یاد تر و تازہ کر دیتا ہے، جسے ہم چودہ اگست یعنی ”آزادی“ کا دن کہتے ہیں۔ جب برصغیر کے مسلمانوں کی مسلسل جدوجہد رنگ لائی اور انہیں انگریزوں سے آزادی ملی۔ آزادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ایک انمول تحفہ ہے۔ جس کا متبادل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہوسکتی، آزادی کے مقابلے میں قیمتی سے قیمتی انمول موتی، ہیرے اور جواہرات کی کوئی حیثیت اور قدر و منزل نہیں ہوتی۔ جیسے ہوا، بادل، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت ہم سب محسوس تو کرسکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کر سکتے۔ کئی برس تک پرندہ بھی پنجرے میں قید رہنے پر اُڑنے کا طریقہ بھول جاتا ہے۔ خدا کا صد شکر ہے کہ ہم انسان ہونے پر ہر سال اپنی آزادی کی خوشی فراق گورکھ پوری کے اس شعر کے مصداق مناتے ہیں۔

لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کی شبانہ روز جدوجہد کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک آزاد ریاست نصیب ہوئی۔ یہ وہ دن تھا جب شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا۔ اس دن ہمارے آباؤاجداد، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی قربانیاں رنگ لائی۔ اس دن ہمارے لاکھوں شہیدوں کے لہو کے ایک ایک قطرے نے ”پاکستان زندہ باد“ کی صداؤں کو بلند کیا، ان کی یہ لازوال قربانیوں کے بدولت ہی پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ اسی آزادی کے حوالے سے فرمانِ قائد ہے کہ ”آزادی کا مطلب بے لگام ہو جانا نہیں ہے، آزادی سے آپ پر بہت بڑی ذمے داری عائد ہوئی ہے، اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔

پاکستان تو آزاد ہوگیا، مگر پاکستانی آج یہ قوم رنگینیوں میں کھو کر آزادی کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ کیا آج ہم پھر سے غلام بنے ہوئے ہیں؟ کیا ہم آزادی سے پہلے بھی انگریزوں کے غلام رہے؟ اور آزادی کے بعد انگریزوں کے غلاموں کے غلام بن گئے؟ کیا ہمارے سیاستدان آج بھی انگریزوں کے وفادار ہیں؟ کیا یہ لوگ آج بھی پاکستان سے زیادہ امریکا اور برطانیہ پر یقین رکھتے ہیں؟

برصغیر سے برطانوی راج کے خاتمے کو آج کئی برس بیت گئے، چودہ اگست کو پاکستان اور ایک ہی دن بعد ہمارا پڑوسی ملک انڈیا آزاد ہُوا، تاہم اتنے برس گزر جانے کے بعد ان دونوں ممالک میں غربت، بے روزگاری، ناخواندگی اور انسانی حقوق کی پامالی برقرار کیوں ہے؟ آج بھی لاکھوں افراد کو دو وقت کی روٹی دستیاب کیوں نہیں ہے؟ آج بھی انڈیا اور پاکستان کے عوام کہاں کھڑے ہیں؟ ان دونوں ممالک نے دنیا میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے جس کا خواب دیکھا گیا تھا؟ ”آزادی“ کے لیے کون سے اہم اقدامات ہیں جنہیں ریاست کو یقینی بنانا چاہیے؟ آپ کی نظر میں آزادی کسے کہتے ہیں؟ آپ کے خیال میں انڈیا اور پاکستان کا مستقبل کیا ہے؟ ہم سب ایک قوم کیسے اور کب بنیں گے؟ جب تک ان تمام مسائل کا حل نہیں نکلے گا تو ایسے بے شمار سوالات یوں ہی جنم لیتے رہیں گے۔ مجھے یہاں شدت سے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان کا شعر یاد آ رہا ہے کہ:

خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

یہاں اگر ہم موازنہ مقبوضہ جموں کشمیر یا فلسطین سے کریں تو ہمیں با آسانی آزادی جیسی نعمت کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح وہاں کے لوگ گھروں میں قید ہو کر اپنی سرزمین پر آزادی کی سانس نہیں لے سکتے اور کئی سالوں سے نظر بند، بھارتی و اسرائیلی جیلوں میں قید اور ان کے ظلم کا شکار ہو رہے ہیں۔ پھول سے معصوم بچوں کی قربانیاں، بزرگوں کی جان کا نذرانہ اور مائیں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں لٹانے پر بھی آزادی کی نعمت سے محروم ہیں ۔ خدارا، آج ہمیں اپنے اپنے گریباں میں جھانکنا ہوگا، اپنی اناؤں اور ذاتی مفادات کو بھول کر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہوگا، پاکستان عظیم نعمت خداوندی کے انمول تحفے کی قدر کرنا ہوگی۔ تبھی ہم دنیا میں دیگر ممالک میں اپنی کھویا ہُوا وقار اور مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ پاکستان کی مٹی میں جو فصل بوئی جاتی ہے وہ کسی سونے سے کم نہیں ہوتی، اس سوہنی دھرتی کو خدا کی بیش بہا نعمتوں کے نوازے جانے کے باوجود بھی ہم کیسے دیگر ممالک کے مقروض ہو گئے؟ ایک بات تو طے ہیں کہ شروع دن سے ہی یہ خطہ عالمی طاقتوں کی نظر میں رہا۔ آزاد مملکت کی بدولت ہماری اور ہماری نسلوں کی پہچان اسی سے ہیں۔ ہمیں چاہیے اس آزادی کی قدر کریں۔

بقول احمد ندیم قاسمی کہ:

خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو

آزادی کے قصے آج اپنے بزرگوں سے سننے کی بجائے ہم لوگ باجے بجانے ،ناچنے اورگانے کے چکروں میں پڑ جاتے ہیں۔ کاش! آج کے یہ نوجوان نسل اس بات کو سمجھ لیں کہ یہ ناچنے کا دن نہیں نہ ہی باجے بجانے کا دن ہے یہ دن شکرانے کے نوافل ادا کرنے کا دن ہے، اپنے بچوں کو آزادی کی قدر بتانے کا دن ہے اپنی ذاتی رنجشوں ، زیادتیوں کو بھول کر یکجا ہونے کا دن ہے۔ اپنی نسل کو اُمید کی نئی کرن دکھانے کا دن ہے۔ جعفر ملیح آبادی کے اس خیال کی مانند:

وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے
ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے

آزادی کا خوبصورت دن منانے کی بہترین گھڑی یہ ہے کہ آپ خود مایوسی اور نا اُمیدی سے آزاد ہو کر خود سے عہد کریں کہ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور اس کے روشن مستقبل میں ہمیں اپنا اپنا بھرپور حصہ ڈالنا ہے کیوں کہ ہم بدلے گے تو پاکستان بدلے گا۔ آخر میں پاکستان کی سلامتی کے نام مجھ خاکسار کے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

وفا کے پھول اس کی وادی وادی میں سدا مہکیں
مرے اللہ کا ہے احسان پاکستان، پاکستان
تھی جن کے دم سے پھیلی روشنی اس دیس میں ساگر
کہاں سب وہ گئے انسان پاکستان، پاکستان

کوئی تبصرے نہیں