ڈاکٹر عابدہ بتول، آسمان ادب کا روشن ستارہ

Dr. Abida Batool

میرا موضوع ہیں اردو زبان و ادب کی نامور ادیبہ، ممتاز ماہر تعلیم اور معروف شاعرہ، ڈاکٹر عابدہ بتول جن کے بارے میں ریاض ندیم نیازی نے اپنی کتاب ”وفا کے موتی“ میں کہا تھا کہ:

فکر و خیال و خواب کی خوگر ہیں عابدہ
شعر و سخن میں سب سے اُجاگر ہیں عابدہ
خوش بخت و خوش نصیب ہیں دنیا میں اس قدر
ایک شعری سلطنت کی سکندر ہیں عابدہ
مخلص ہیں، نرم خُو ہیں، ملنسار بھی ہیں وہ
رتبے میں جیسے کوئی قلندر ہیں عابدہ

وفا کے موتی“ کے مصنف و شاعر ریاض ندیم نیازی جی نے اپنی اس اچھوتی و منفرد نظم میں ڈاکٹر عابدہ بتول کے بارے میں جو بھی کہا ہے وہ صد فی صد درست ہے۔ اس میں مبالغہ آرائی نہیں بلکہ سچائی اور پذیرائی ہے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول واقعی آسمان ادب کا روشن ستارہ ہیں اور علم و حکمت کا ایک استعارہ ہیں۔ مجھے اس بات کی بڑی ہی خوشی ہے اور فخر بھی ہے کہ ایم اے اردو کرتے ہوئے یہ محترمہ یونیورسٹی میں میری استاد رہی ہیں، میں ان کا نہ صرف شاگرد رہا بلکہ شاگرد خاص بھی رہا، میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے کلاس میں اپنے ساتھی طلبہ و طالبات کو اپنا کلام سناتا اور داد و تحسین وصولتا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر عابدہ بتول کے الفاظ میں:

میں نے پوچھا

کون ہو تم؟

چونک کے بولی

فراموشی کی الماری میں

دیمک زدہ کتاب ہوں میں

Raja Shahid Rasheed

استاد، محقق، مولف، نقاد، افسانہ نگار، شاعرہ، ادیبہ اور سوشل ورکر ڈاکٹر عابدہ بتول ایف سی کالج چارٹرڈ یونیورسٹی لاہور کے شعبہ اردو میں پروفیسر ہیں، انہیں ایف سی کالج کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ریسرچ جرنل آفاق تحقیق کی مدیر اعلیٰ اور آفاق ادب پاکستان کی بانی و صدر ہیں۔ انجمن نفاذ اُردو شعبہ خواتین کی صدر اور تحریک نفاذ اردو لاہور کی نائب صدر ہیں۔ آپ ایف سی کالج کے علاوہ منہاج یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی اور لاہور لیڈز یونیورسٹی میں ایم فل کلاسز کو پڑھا چکی ہیں۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ میں ہیڈ ایگزامنر اور پنجاب یونیورسٹی میں سب ایگزامنر ہیں۔ آپ کا مشہور زمانہ شعر ہے کہ:

زیست کی کہانی میں مر چکی وہ کب کی
پھول پھر بھی تتلی کا انتظار کرتا ہے

ڈاکٹر عابدہ بتول کی زیر نگرانی تین ایم فل کے مقالہ جات بھی مکمل ہو چکے ہیں، کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا ایم فل کا مقالہ ”اردو لغت نویسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ اور پی ایچ ڈی کا مقالہ ”اردو کلاسیکی شاعری کی تدوین کا فن اور تدوین نو“ تھا۔ آپ مختلف ادبی کانفرنسز میں ملکی و عالمی سطح پر اپنے مقالے پیش کرتی رہی ہیں۔ عابدہ بتول اپنے خالص پنجابی رنگ میں کہتی ہیں کہ:

آکھن لگی باؤجی!

حیاتی مانڑیں شالا

ہک گل تے دس؟

کدی کسے دے کرب دی فوٹو کھچ کے

اس وچ رنگ بھرے نے

ڈاکٹر عابدہ بتول کی دو کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی پہلی کتاب ”فن تدوین مباحث اور مسائل“ ہے جو ایم۔ فل اور پی ایچ ڈی کا اساتذہ اور طلبا کو سہولت فراہم کرتی ہے اور اس کے علاوہ ان کی دوسری کتاب بھی ہے جو ”اردو لُغت نویسی کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ“ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر عابدہ بتول کے حوالے سے ڈاکٹر بدر منیر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

نقد و لسانیات میں کامل ہے عابدہ
سارے محققین کی منزل ہے عابدہ

کوئی تبصرے نہیں