کرناٹک، ممتاز شاعر سلیمان خمار کا انتقال
ممبئی (رپورٹ: ندیم صدیقی) دورِ جدید کے معروف اور کرناٹک کے ممتاز شاعر سلیمان خمار طویل علالت کے بعد آج بیجا پور (کرناٹک) میں انتقال کر گئے۔
سلیمان خمار یکم مارچ1944
کو باگل کوٹ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اپنی عملی زندگی بیجا پور ہی سے شروع
کی اور کرناٹک گورنمنٹ کی باوقار ملازمت سے سبکدوش ہوئے اور بیجا پور جیسے تاریخی شہر
ہی میں نہ صرف انہوں نے آخری سانس لی، بلکہ اسی عادل شاہی سرزمین میں آسودہ خاک ہوئے۔
ترقی پسند تحریک کا آفتاب جب زرد ہو رہا تھا اور ادبی حلقوں
میں جدیدیت کی لہر اٹھ رہی تھی تب سلیمان خمار بیجاپور (کرناٹک) کی سرزمین سے اُٹھے
اور ادبی اُفق پر نمودار ہوئے۔ ان کی شعری تخلیقات ہند ہی میں نہیں بلکہ سرحد پار کے
ممتاز جرائد میں بھی شائع ہوئیں، سلیمان خمار کی شعری پذیرائی کا ایک اندازہ یوں لگایا
جاسکتا ہے کہ اُن کا پہلا شعری مجموعہ ”تیسرا سفر“ (1981) میں ماڈرن پبلشنگ ہاؤس (دہلی)
نے شائع کیا تھا، جسے اُس وقت کے ممتاز شاعر کمار پاشی نے مرتب کیا تھا۔ سلیمان خمار
کی دوسری شعری کتاب”سمندر جاگتا ہے“ (2009 میں) کرناٹک اُردو اکادمی کے زیر اہتمام
منظر عام پر آئی۔
سلیمان خمار کو 2009 میں کرناٹک اُردو اکادمی نے ان کی شعری خدمات پر خصوصی ایوارڈ بھی دیا جو دس ہزار روپے نقد، مومنٹو اور سپاس نامے پر مشتمل تھا۔ان کے شعری محاسن کی پذیرائی کرنے والوں میں دور ِجدید کے ممتاز ناقد وارث علوی ، ممتاز شاعر زبیر رضوی ، ندا فاضلی، مظفر حنفی، مخمور سعیدی جیسے اہل ادب تھے۔
بیجا پور تاریخی شہر ہے جسے
گنبدوں کا شہر بھی کہا جانا چاہیے، اگر آگرے میں مغل بادشاہ شاہجہاں کے بنوائے ہوئے
تاج محل کو دنیا کے عجائبات میں ”ممتاز“ مقام کا حامل ہے تو وہیں عادل شاہی دَور کی
یادگار المعروف ”گول گنبد“ بیجاپور ہی کا نہیں بلکہ جنوبی ہندوستان کے عجائبات میں
اہمیت کا حامل ہے، جسے دنیا بھر کے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ اسی شہر میں سرکاری سطح پر
ہر سال ایک ثقافتی میلے جیسی تقریبات بھی طویل مدت تک منعقد ہوتی رہی ہیں اور ان تقریبات
کی رونق ’مشاعرہ‘ ہوتا تھا جس کے اہتمام میں سلیمان خمار کی خدمات بنیادی حیثیت رکھتی
تھیں۔ ملک کی آزادی کے بعد بتدریج اُردو مشاعرے کی احسن روایات کی مشعل مدھم ہو رہی
تھیں مگر بیجا پور کے جن مشاعروں کا ذکر ہورہا ہے اُن میں اپنے وقت کے روشن نام زبیر
رضوی، ندا فاضلی، مخمور سعیدی، شین کاف نظام اور افتخار امام صدیقی جیسے شعرا بالخصوص
مدعو کیے جاتے تھے، سلیمان خمار سے ہمارا تعارف بھی انہی مشاعروں کے سبب ہوا اور پھر
اُن سے ایک دوستانہ تعلق استوار ہوا وہ بیجا پور کے شعرا میں اپنی جدتِ طبع کے سبب
ممتاز تشخص رکھتے تھے۔ اسی شہر میں ہاشمی سلسلے کے پروفیسر اقبال ہاشمی جنہیں پورا
بیجاپور’اقبال پیراں‘ کے کلمہ تکریم کے ساتھ یاد کرتا ہے، روایت ہے کہ سلیمان خمار
کو انہی بزرگ سے تلمذ حاصل رہا ہے۔ بیجا پور میں چونکہ مذہبی رجحان بھی عام ہے، وہاں
مسالمے، نعتیہ مشاعرے اور نعتیہ محافل کی بھی ایک روایت روشن رہی ہے، سو سلیمان خمار
کو نعتیہ شاعری سے بھی قابلِ ذکر شغف رہا ہے، وہ اپنی اکثر نعتیں اخبار میں اشاعت کے
لیے احقر کو ارسال کیا کرتے تھے۔ اس وقت اُن کی نعت کا ایک شعر قلبِ ندیم پر روشن ہے۔
میرے آقا نے دِیا ہے آبیاری کا ہنر |
بانجھ ہوتی ڈالیوں کو باثمرکرتا ہُوا |
سلیمان خمار اچھی خاصی شعری
صلاحیت کے حامل شخص تھے مگر عام شعرا کی طرح ان کے ہاں کوئی شعری طمع ہم نے کبھی محسوس
نہیں کی۔ وہ جہاں اچھے شاعر کے طور پر اپنا امتیاز رکھتے تھے تو وہیں وہ ایک شریف اور
وضع دار انسان بھی تھے۔
سلیمان خمار کے معاصرین میں
بلکہ قدر دانوں میں شین کاف نظام ہی رہ گئے ہیں، ہم نے انھیں فون پر سلیمان خمار کے
سناونی دی تو اُن کا افسوس کے ساتھ یہ تاثر تھا:
”سلیمان خمار ہمارے اُن شعرا میں سے تھے
جنہیں اُن کا حق نہیں ملا، وہ نہایت مخلص انسان تو تھے ہی لیکن اس سے بڑی بات یہ ہے
کہ وہ ہمہ وقت ادیب تھے۔ اُن سے ملنا، اُن سے بات کرنا، اُن سے شعر سننا یہ ظاہر کرتا
تھا کہ ہم ایک ہی وقت میں قدیم احسن قدروں کے ساتھ ایک جدید انسان سے مل رہے ہیں۔“
اپنی روایات سے کوئی بھی
سنجیدہ شخص لاتعلق ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہ روایت ہی سے اپنی شعری فصل کے لیے زمین
ہموار کرتا اور کھاد حاصل کرتا ہے۔
سلیمان خمار کو ہم نے بھی
جدید شاعر ہی کے طور پر جانا اور سمجھا مگر ان کے ہاں روایت کی قدریں کس قدر مستحکم
تھیں، ان کا درج ذیل شعر اس کی واضح شہادت بنا ہوا ہے۔
جب بھی آتا ہے بھٹک کر میرے حجرے کے قریں |
کیف میں تبدیل ہو جاتا ہے غم، من دیگرم |
کوئی تبصرے نہیں