جوش ملیح آبادی سے تبسم ملیح آبادی تک
تحریر: راجہ شاہد رشید
آج ہم بات کرتے ہیں ایک ادبی
گھرانے کی جو پاک و ہند کے علمی و ادبی گھرانوں میں بہت ہی نمایاں اور اہم ہے۔ جوش
ملیح آبادی کے نام، کام اور مقام سے کون نہیں واقف کہ جوش جی کے ذکر و فکر کے بغیر
برصغیر و ایشیا کی شعری تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی بلکہ ادھوری و نامکمل رہ جاتی ہے۔
جوش ملیح آبادی وادی ادب میں سب سے اچھے، سُچے و سچے اور اچھوتے و نیارے تھے، دنیائے
ادب کے فلک کے روشن چاند ستارے۔ یہ حقیقت نہ صرف پورا پاکستان، سارا ہندوستان جانتا
ہے بلکہ سات سمندر پار تک بھی سارا جہاں جانتا ہے لیکن مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا
پڑ رہا ہے کہ ہم سب علمی و ادبی و فکری مسلک پرستی اورگروپ بندیوں میں بٹ کر رہ گئے
ہیں، ہم مولویوں کی مانند فرقہ واریت کے دائروں کے قیدی ہی بنے رہے ہیں، متعلقہ شخصیات
اور ادارے میری اس بات پر توجہ فرمائیں کہ جوش ملیح آبادی پر اس قدر کام نہیں ہو سکا
جتنا ہونا چاہیے تھا، یہ ہمارے لیے لازم و ملزوم تھا اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
اب تو ہوش کے ناخن لیں اور اتنی عظیم ہستی کی تخلیقات کو سنبھالیں اور ان کی خدمات
کی قدر کریں، آپ ملاحظہ فرمائیے موصوف کا بے مثال کلام ۔
اے مرتضیٰ، مدینہ علم خدا کے باب |
اسرارِ حق ہیں تیری نگاہوں میں بے نقاب |
ہے تیری چشمِ فیض سے اسلام کامیاب |
ہر سانس ہے مکارمِ اخلاق کا شباب |
نقشِ سجود میں وہ ترے سوز و ساز ہے |
فرشِ حرم کو جس کی تجلی پہ ناز ہے |
تبسم آفریدی ملیح آبادی
”شاعر انقلاب“ جوش ملیح آبادی کی پوتی اور ریاست جونا گڑھ کے سابق وزیراعظم دیوان بیرسٹر
محمد امین کی نواسی ہیں۔ ان کی اپنی شاعری کا مجموعہ بھی تیار ہے مگر وہ کہتی ہے کہ
میری زندگی کے دو ہی تو اہم مقاصد ہیں، اول یہ کہ جوش جی کے آخری مجموعہ کلام ”مہمل
و جرس“ کی اشاعت اور دوسرا جوش صاحب کے حوالے سے مرتب کردہ میری اپنی کتاب ”جوش درون
خانہ“ کی اشاعت چاہتی ہوں۔ تبسم مزید کہتی ہیں کہ میرے بابا کا ایک نایاب رقعہ جو انہوں
نے مجھے میری بیماری کے دوران لکھا تھا، میں ہسپتال میں تھی، سخت سردی کا موسم تھا،
بابا کے گھٹنوں میں شدید تکلیف تھی جس کے باعث وہ آفیسر وارڈ Second Floor پر نہیں آ سکتے تھے اس لیے گھر کے افراد
کے ہاتھوں انہوں نے یہ رقعہ مجھے بھیجا تھا۔ ”میری پیاری پختوری! ہائے کیوں کر تجھ
تک پہنچوں، ان دُکھتے گھٹنوں سے کیوں کر سیڑھیاں طے کروں، اللہ تجھ کو اچھا اور مجھ
کو تجھ پر قربان کردے۔“ نیچے جوش صاحب کے دستخط ہیں، جوش لکھا ہے اردو میں اور تاریخ
درج ہے (1980-3 -6) ۔
یہ رقعہ آج بھی مجھے اپنے بابا کے قرب کا احساس دلاتا رہتا ہے کہ رشتے کتنے قیمتی ہوتے ہیں۔ آج جب کوئی اپنا پسینہ بھی کسی پر ٹپکانا گوارا نہیں کرتا، وہیں دادا اپنی پیاری پوتی کی صحتیابی کے عوض اپنا آپ قربان کرنے کو تیار تھے۔ ہائے میرے بابا! آپ اپنی پیاری پوتی کو کیوں اس سفاک دنیا کے سپرد کرگئے جہاں میرے آنسوؤں کی قیمت نمکین پانی کے سوا کچھ نہیں۔
کوئی تبصرے نہیں