شاعرعلی شاعرکے”تنقیدی آئینے“
تحریر:صدام ساگر
تنقید کے معنی ہیں ”کھوٹا
کھرا پرکھنا“ اصطلاحا کسی موجود مواد کی مصایب وطاسن متعلق فیصلہ دینا نقاد کے مدنظر
ہوتا ہے۔”تنقیدی آئینے“ بھی ہمیں نئی حقیقتوں سے آشنا کرواتا ہوا ایک مجموعہ ہے۔ جس
کے مصنف شاعر علی شاعر ہے۔وہ اُردو ادب میں ایک حوالے کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں
نے اپنی کتاب کا نام ”تنقیدی آئینے“ رکھا ہے جس میں تنقیدی مضامین اور انٹرویوز ان
کے زورِ قلم کا ثمر نظر آتے ہیں۔جس کا انتساب ڈاکٹر جمیل جالبی کے نام کیا گیا ہے۔
تنقیدی آئینے کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی نظر اور فکر
دونوں کو ضائع نہیں ہونے دیا بلکہ ایسے لوگوں پر قلم اُٹھانے کا جتن کیا ہے جنہوں نے
ساری زندگی قلم اور کتاب سے جوڑے رکھی۔اس کتاب میں تنقیدی مضامین حمایت علی شاعر، پروفیسر
سحر انصاری، انور شعور، ڈاکٹر معین الدین عقیل، امجد اسلام امجد، ڈاکٹر انعام الحق
جاوید، رفیع الدین راز، سہیل غازی پوری، ڈاکٹر ہارون رشید تبسم،لیاقت علی عاصم، گستاخ
بخاری، جسارت خیالی ودیگر شخصیات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کتاب میں انٹرویوز اعجاز رحمانی،
شاعر صدیقی، خواجہ معزالدین اور ریاض ندیم نیازی کے شامل ہیں۔تنقیدی آئینے کے حوالے
سے اے خیام لکھتے ہیں کہ”اکثر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ تنقید کی ایسی کوئی صورت
نہیں جو ذاتی تعصب اور تاثر اور ذاتی پسند وناپسند سے یکسر عاری ہو، لیکن اصول، انتقادیات
کو اگر مدنظر رکھا جائے تو دلائل کی بڑی اہمیت ہے اور ساتھ ہی وسیع اور متنوع موضوعات
کے مطالعے کی۔ تحسین، تنقیص اور تبصرے سے بالاتر ہو کر تنقید لکھنے کی روش بہت عام
نہیں ہے اور یہ عمومی شعور کے حامل قلم کاروں کے لیے ممکن بھی نہیں ہے۔“اس کتاب میں
ہفت زبان شاعر ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا فنِ شاعری اور عہد آفرین شخصیت کے عنوان
سے بھی مضمون شامل ہے۔ جو خالصتاََ تنقید اور تحقیق دونوں عمل سے مرتب کیا گیا ہے۔اس
کے علاوہ” شاعری کی جان“ یہ مضمون جان کاشمیری کی شخصیت اور ان کے ایک سال میں ایک
ہی دن منظر عام پرآنے ولے دس عدد شعری مجموعوں کو تنقیدی نظر میں یوں دیکھتے ہیں کہ”جان
کاشمیری نے یہ عزت وشہرت کسی بازار سے نہیں خریدی بلکہ قطرہ قطرہ جمع کر کے سمندر بنایا
ہے۔اُن کی شعری عمر کا حساب لگائیں تو آج وہ پاکستان کے صفِ اول کے شعرا میں شمار کیے
جائیں گے۔ اس بات کا ثبوت اُن کی وہ ندرتِ خیالی ہے جو اُن کے اشعار میں پائی جاتی
ہے۔ وہ نازک احساسات ہیں جن سے اُنہوں نے شعروں کو بُنا ہے، زندگی کے وہ تلخ وشیریں
تجربات ہیں جن کی آگ میں تپ کر وہ کندن بنے ہیں۔“ایک مضمون ماہرِ علم عروض ڈاکٹر آفتاب
مضطر کے ھوالے سے شامل ہیں۔ جس میں اُن کے علم عروض اور اُن کی شخصیت دونوں پر ایک
ساتھ تنقیدی نظر سے بیان کیا گیا ہے۔جس میں مصنف لکھتے ہیں کہ ”عروض اُن لوگوں کے لیے
مشکل ہے جو اسے سکھنا نہیں چاہتے۔ وہی لوگ عروض کے خلاف ہیں اور اس میں عروضی مغالطے
پیدا کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ اُردو عروض ایک نافع علم ہے۔ جس طرح علم انسان کا
زیور ہے جو انسان کو زیب وزینت بخشتا ہے اسی طرح علم عروض شاعری کا زیور ہے جو اسے
نکھارتا، سنوارتا اور فنی عیوب سے پاک کرتا اور اس کے محاسن کو اُجاگر کرتا ہے۔ “ یہ
بات سچ ہے کہ ہرعلم عروض انسان کے کلام کے ساتھ ساتھ اُس کی شخٰصیت کو بھی نکھارتا
ہے۔ ولی دکنی ،میر ،غالب واقبال کے علاوہ بہت سے شعرا علم عروض کے ماہر تھے۔ جو محفل
میں شعر سنتے ہوئے علم عروض کی طرف زیادہ توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ مگر آج ایسی کیفیت
نہیں ہے۔ اگر ہے تو اُسے ہم ماننے پر خود کو نااہل سمجھتے ہیں۔
شاعر علی شاعر کے تنقیدی
آئینے حقیقت کی زبان بولتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خود بھی ایک صاحبِ مطالعہ آدمی ہے وہ
تنقید اور تحقیق میں فرق کو اچھے سے سمجھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی ہم
عصروںپر قلم آزمائی کرتے ہوئے اُن کی شخصیت اور فن پر نظر ڈالتے ہوئے انہیں تحقیق سے
تنقید کے آئینے میں دیکھتے ہوئے اہل قلم کو ایک صاف آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ایسا
آئینہ جس میں تخلیق کار اور تنقید کار دونوں اپنے میں باتیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
کیونکہ میری نظر میں تنقید بھی ایک سائنس ہی ہے۔ کیونکہ یہ بھی سائنس کی طرح ایک سچائی
کی جوبندہ پایندہ ہے اور یہ سچائی حسن کی تلاش اور اس کی نسبتوں اور مقداروں کے تعین
سے متعلق ہے اور اس کے بھی کچھ عقلی اصول ہیں۔ میرے خیال میں شاعر علی شاعر نے اپنے
تنقیدی آئینے میں ایسی ہی سچائیوں اور نسبتوں کا تعین کرتے ہوئے اپنی عقلی اصول پرستی
کو ایک نئی شکل دینے کی جد وجہد کی ہے۔ جو یقینا اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد اضافہ
کا باعث ثابت ہوگی جس سے شاعر علی شاعر کا قد اور بھی اونچا ہو جائے گا۔ تنقیدی آئینے
جس کے کل صفحات 264 ہیں۔ اس کتاب میں جن ادبی شخصیات سے شاعر علی شاعر مکالمہ کر رہے
ہیں ان کی شخصی زندگی اور ادبی کارگزاریوں سے بہ خوبی واقف ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں