گجرات میں اُردو کے مشہور شاعر عباس دانا رحلت کر گئے
ممبئی :27اگست۔(رپورٹ: ندیم صدیقی) گجرات میں اُردو کے مشہور شاعر (بیاسی سالہ) عباس دانا طویل علالت کے بعد آج (پیر کی) علی الصبح اپنے وطن بڑودہ میں رحلت کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
عباس دانا 7 جنوری 1942 کو بڑودہ میں پیدا ہوئے تھے۔ سلیمانی
بوہرہ فرقے سے تعلق رکھنے والے ان کے والد محمد شاکر ریلوے میں کنٹریکٹر تھے اور عباس
دانا کا بھی یہی سلسلہ روزگار
تھا۔
گزشتہ صدی کے آٹھویں دہائی میں عباس دانا سے ہماری ملاقات
بڑودہ ہی کے ایک مشاعرے میں ہوئی تھی، وہ خوش گو شاعر تھے اور انھیں اپنے وطن میں بھی
خاصی مقبولیت حاصل تھی۔
ان کا کلام کئی ممتاز گلوکاروں نے گایا ہے۔ عباس دانا کے پانچ شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں جن کے نام اس طرح ہیں:
خوشبو، فانوس، تتلی کے پَر، موسم اور شیش محل۔
عباس دانا کی سناونی بڑودہ
کے معروف گجراتی صحافی شکیل قادری کے توسط سے ہمیں ملی، قادری نے یہ بھی بتایا کہ ان
کا چھٹا شعری مجموعہ بھی زیر ترتیب تھا مگر۔۔۔
گجرات سرکار کا موقر ایوارڈ ’گَورو پُرسکا‘(Gauraw Puruskar) جو ایک لاکھ روپے پر مشتمل ہوتا ہے، عباس دانا کو بھی دیا گیا تھا، واضح
رہے کہ ان سے پہلے یہ اعزاز مشہور جدید اُردو شاعر محمد علوی، ممتاز ناقد وارث علوی
کو بھی دیا جاچکا ہے۔ عباس دانا کو حجاز میں بھی جدہ کی ایک ادبی تنظیم نے کئی برس
قبل اعزاز دیا تھا۔
عباس دانا کے کئی شعر زباں زدِ عام ہیں، کوئی چالیس برس قبل بڑودہ ہی کے ایک مشاعرے میں جب انہوں نے یہ شعر پڑھا تو پور ی مشاعرہ گاہ داد و تحسین سے گونج رہی تھی:
خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر |
ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کیے بغیر |
عباس دانا اپنے عہد میں بڑودہ ہی کے نہیں بلکہ گجرات بھر کے اُردو شعرا میں ممتاز تشخص کے حامل تھے ان کی شہرت اور مقبولیت کے ہم خود گواہ ہیں مگر وہ خود یہ بھی کہہ گئے ہیں:
اب تو رُسوائی بھی شہرت میں گِنی جاتی ہے |
کچھ نہ کچھ ہم پَہ بھی الزام لگایا جائے |
کوئی تبصرے نہیں