توکل
لفظ ”توکل“ کے لغوی معنی ہیں، اپنی ذات سے ہٹ کر کسی دوسرے پر انحصار کرنا ساتھ اُس انحصار پر مکمل اعتماد رکھنا۔ عموماً جب انسان اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو وہ کسی ایسی ذات کو ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے، جس کے پاس اُس کی پریشانیوں کو ختم کرنے کا اختیار موجود ہو اور جس پر وہ پورے اعتماد سے انحصار کر سکے۔ توکل اِلَّا اللہ دراصل ایمان کا وہ اعلیٰ درجہ ہے جہاں انسان گھٹا ٹوپ راستوں پر انجان منزل کی جانب اس یقین کے ساتھ سفر کرتا ہے کہ یہ جو وحشت ناک اندھیرا ہے اس کے پار روشن صبح اللہ کے حکم سے اُس کی منتظر ہوگی۔ توکل اِلَّا اللہ کو سمجھانا جتنا سہل ہے اس کو زندگی میں اپنانا اتنا ہی دشوار ہے، یہ کانٹوں سے لیس راستہ ہے، جو انسان بھی اس مشکل راہ پر اپنے رب پر بھروسہ کرکے صبر و شکر کرتے ہوئے چل پڑتا ہے، سفر کے اختتام پر خالق کی جانب سے اُس پر مہکتے پھولوں کی بارش یقینی ہے۔
بیشتر افراد توکل اِلَّا
اللہ کی تعریف سے واقفیت تو رکھتے ہیں مگر اپنے وجود پر اس کو لاگو کیسے کیا جاتا ہے
انھیں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ اپنی زندگی میں آنے والی آزمائشوں پر وہ بوکھلا جاتے ہیں
اور اُن کی دلجوئی کے لیے لوگوں کے عام طور پر کہے الفاظ ”اللہ پر توکل کرو“ اُس بوکھلاہٹ
میں مزید اِضافہ کردیتے ہیں کیونکہ یہ کیسے کیا جاتا ہے اُنھیں اس کا کوئی خاص ادراک
نہیں ہوتا ہے۔ اللہ پر توکل کرنے کا طریقہ سیکھنے کا موقع خوش نصیب لوگوں کو ملتا ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ایمان کو جانچنے کے لیے وقتاً فوقتاً مختلف نوعیت کے امتحانات
لیتے رہتے ہیں۔ اُن میں سے جو افراد وجود جھنجھوڑتی اور روح کپکپاتی آزمائشیں آنے پر
گھبراتے نہیں اور نہ اپنے نیک اصولوں سے منحرف ہوتے ہیں بلکہ ثابت قدمی کے ساتھ اپنے
مثبت ارادوں پر ڈٹے رہتے ہیں وہ پھر خدا کے پسندیدہ بندوں کی فہرست میں شامل کر لیے
جاتے ہیں۔
عشقِ حقیقی توکل اِلَّا اللہ
تک پہنچنے کی سیڑھی ہے، خالق کے لیے عشق کے جذبات دل میں رکھے بغیر مخلوق اُس ذاتِ
عظیم پر مکمل انحصار کرنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کر ہی نہیں سکتی ہے۔ توکل اِلَّا
اللہ کی پہلی شرط اپنے وجود کی اللہ تعالیٰ کو سپردگی ہے کیونکہ اس کے بغیر معاملہ
کسی صورت آگے بڑھ نہیں سکتا ہے۔ جب کوئی انسان اپنی پوری آمادگی کے ساتھ خود کو اپنے
رب کے حوالے کر دیتا ہے تو پھر کسی سوال کی گنجائش بچھتی ہے نہ مڑ کر پیچھے دیکھنے
کی، بس سر جھکا کر کھردرے راستوں پر ایمان کی پٹی آنکھوں پر باندھ کر چلتے چلے جانا
ہے۔ جن سے عشق کیا جاتا ہے اُن کا کہنا بھی فرض کا مقام رکھتا ہے اور اُس کی ذات پر
کامل یقین رکھنا اس رشتے کا اہم تقاضہ سمجھا جاتا ہے۔ کیا، کیوں اور کس لیے، جہاں ذہن
میں آئے وہیں سے عاشق کی نیگیٹو مارکنگ شروع ہو جاتی ہے۔
ہر انسان کے توکل اِلَّا
اللہ کا سفر دوسرے انسان سے مختلف ہوتا ہے مگر اس کا تجربہ سبھی انسانوں کے لیے عجب
قسم کی راحت سے بھرپور ہوتا ہے جس میں تکلیفوں سے گزرتے رہنے کے باوجود دل میں ہمہ
وقت سکون کا احساس موجود رہتا ہے۔ اس راستے پر ہر بار انسان کے قدم لڑکھڑانے پر کوئی
غیبی قوت فوراً سنبھال لیتی ہے، درد کی شدت سے کسی کا وجود تھک جائے تو اللہ تعالیٰ
خود ہاتھ پکڑ کر چلاتا ہے۔ آزمائش کی اُن گھڑیوں میں انسان کے روم روم سے اُس کے گناہ
جھڑ رہے ہوتے ہیں اور ایسے موقعوں پر ایمان والوں کے لبوں سے نکلی ہر جائز دعا قبولیت
کا شرف حاصل کر رہی ہوتی ہے۔ دراصل پروردگار عالم اپنے اُنھی بندوں کا امتحان لیتا
ہے جن میں اُس امتحان کی سختیاں برداشت کرنے کا حوصلہ موجود ہو اور اس معاملے میں باحوصلہ
صرف وہی لوگ پائے جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے عشق کا خالص جذبہ رکھتے ہیں۔
قرآن شریف میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں، ”اور جو شخص اللہ پر توکل کرے گا اللہ اُسے کافی ہے۔“ وہ بڑی ذات جو رب العالمین ہے اپنے بندوں کو کبھی بیچ منجدھار میں اکیلا نہیں چھوڑتی، صحیح وقت آنے پر اُنھیں صحیح جگہ پہنچا کر رہتی ہے، لٰہذا جلد بازی اور بار بار بند دروازوں کو کھٹکھٹانے سے اور اُن کو نہ کھلتا پا کر اُتاولے پن میں جھروکوں سے جھانکنے سے انسان کے وجود پر محض مایوسی چھا جاتی ہے جبکہ ہمارے مذہب اسلام میں مایوسی کو کفر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ توکل اِلَّا اللہ انسانی زندگی میں ٹھہراؤ لاتا ہے، بھاگتی دوڑتی منفی سوچوں اور بے مقصد پالی ہوئی پریشانیوں کو لگام لگاتا ہے ساتھ انسان کو اُس کی نفس کا غلام بننے سے باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل انسان کو اپنے خالق کے ہر انکار پر اُس کی ذات سے بددل ہونے سے بچاتا ہے بلکہ دنیا میں ملنے والی ہر چوٹ سے اُسی کا مرہم تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم ہے، ”قیامت کے روز جب مصیبت زدہ لوگوں کو (ان کے صبر کے سبب) اجر و ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں آرام و سکون (کی زندگی گزارنے والے) تمنا کریں گے کاش! دنیا میں ان کی جلدیں قینچیوں سے کاٹ دی جاتیں۔“ ایک مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کی ایک جماعت سے سوال پوچھا،”کیا تم مومن ہو؟“ وہ خاموش رہے، حضرت عمرؓ نے عرض کیا،”اے اللہ کے رسول! ہم آسانی میں شکر کرتے ہیں اور ابتلا میں صبر کرتے ہیں اور قضا پر راضی رہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ کعبہ کے رب کی قسم! تم مومن ہو۔“ حضور اکرم نے مومنین کو آزمائش کے دور میں اپنے پروردگار پر توکل کرنے پر ملنے والے انعام و کرام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ”بندہ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں خیر ہی خیر ہے، لیکن اگر اسے کوئی رنج اور دکھ پہنچتا ہے تو وہ اس کے لیے خیر اور موجبِ برکت ہوتی ہے۔“
اہل ایمان کے قلب میں اُس
کے خالق کے لیے عقیدت و احترام کا جذبہ خود بخود اُس کا وجود قوتِ عظیم کے سامنے جھکا
دیتا ہے اور یہیں سے توکل اِلَّا اللہ کی شروعات ہوتی ہے، للاہیت کا یہ اصول مومن کو
بہشت کا یقینی طور پر مکین بنا دیتا ہے۔ رب پر توکل کرنے کے انسان کو بڑے فائدے ہیں
جیسے کہ اُس کو اپنی کسی پریشانی کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں
پڑتی کیونکہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ کافی ہے جو کہ سب سے بڑا کار ساز ہے۔ اس کے
علاوہ انسان کی زندگی میں آنے والی اندھیری رات کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو، چین و سکون
کے احساسات اُس کے لیے کبھی مدھم نہیں پڑتے۔ تخلیق کا تخلیق کار کی رضا میں راضی رہنا
بہترین منزل تک اُس کی رسائی کو ممکن بناتا ہے، تھوڑے وقت کی آزمائش عمر بھر کے سکون
کا وسیلہ بنتی ہے۔ توکل اِلَّا اللہ کا راستہ پرکھنے والی آنکھ کو موتیوں سے لیس دکھائی
دیتا ہے جبکہ نہ سمجھوں کو یہ فقط زندگی کا ایک تاریک دور معلوم ہوتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں