ایک باشعور حساس شاعر، صدا کار، سعید واثق
صدام ساگر
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، وہ غور و فکر بھی کرتا ہے اور محسوس بھی کرتا ہے۔ شاعری میں اس کی کار فرمائی زیادہ نظر آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کی شاعری میں فکر و ادراک اور جذبہ و احساس گھل مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ بڑا شاعر زندگی کی حقیقتوں پر غور کرتا ہے اور انہیں اپنے اشعار میں پیش کرنے سے پہلے جذبہ و احساس کی شکل دے دیتا ہے۔ میرے نزدیک سعید واثق نے اس فرض کو بڑی ہنر مندی سے ادا کیا ہے۔
سعید واثق پیشہ کے اعتبار
سے صحافی ہیں۔ انہیں بچپن سے ہی کتابیں پڑھنے اور لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ انہوں نے
ابتدا میں عزیز اثری کے ”امروز“ اخبار میں ”بچوں کی دنیا“ میں سعید احمد خوشنود کے
نام سے کہانیاں اور نظمیں لکھنا شروع کیں۔ دریائے جہلم کے کنارے پر آ باد خوشاب ان
کا آ بائی شہر ہے، بہاولپور کے صادق ایجرٹن کالج میں زیر تعلیم رہے۔ گریجویشن کے بعد
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات سے ماسٹرز کیا۔ لاہور جیسے بڑے شہر میں آ کر انہوں
نے اخباری دنیا سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے روزنامہ ”وفاق“ سے ابتدا کی۔ پھر جب لاہور
سے ”خبریں“ اخبار کا آغاز ہوا تو اس سے منسلک ہوتے ہوئے نیوز روم، رپورٹنگ اور پھر
شعبہ میگزین میں بھرپور کام کیا ۔ اخباری دنیا میں ضیا شاہد جیسا اُستاد صحافی کوئی
دوسرا نہیں، وہ ایسی ہستی ہیں جو پتھر کو بھی ہیرا بنا دیتے ہیں، میرے خیال میں سعید
واثق کو بھی انہی سے جلا ملی۔
سعید واثق ایک صحافی ہونے کے ساتھ ایک باکمال شاعر، کالم نگار اور براڈ کاسٹر کے طور پر جہانِ ادب و صحافت میں اپنی ایک پہچان رکھتے ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے ایف ایم چینلFM100 کے مقبول میزبان ہیں۔ ان کے بولنے کا اندازِ بیاں بہت شیریں ہے۔ محمد ارشد لئیق کہتے ہیں ”وہ خود سے یا تنہائیوں سے باتیں کرنے کے عادی نہیں بلکہ وہ ایسے لوگوں سے مخاطب ہوتے ہیں جو سمجھنے سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے۔ واثق کے اندر ایک ایسا انسان پوری طرح سے موجود ہے جو کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں مگن رہتا ہے۔ ہم نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر نمودار ہونے والے بیشتر اینکر پرسنز کو دیکھا ہے جو تلفظ کی اہمیت سے نہ واقف ہیں کہ روز ایک ہی تلفظ کو بار بار غلط بولتے ہیں اور کبھی اپنی تصحیح کرنے کا تردد بھی نہیں کرتے۔ اس حوالے سے سعید واثق ایک منفرد حوالہ رکھتے ہیں۔ وہ تلفظ کی اہمیت سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ اس کا درست استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ”جنگ“ گروپ کے جس اخبار میں بطور میگزین انچارج کام کرتے رہے اُس اخبارکا نام ”وقت“ تھا۔ ہر اتوار کو جب ”وقت“ اخبار میں ”وقت میگزین“ آتا تو ان کا صفحہ نمبر 3 پر شائع ہونے والا ”سنڈے اسپیشل“ ایک اداریے کی صورت میں بڑے خاصے کی چیز ہوتا۔ ان کے بعض جملے کسی قول کی مانند محسوس ہوتے۔ جس سے ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کا بھرپور اندازہ ہوتا۔“
میں یہاں یہ بات انتہائی خوشی سے کہہ رہا ہوں کہ بہت دفعہ اس میگزین کے ادبی صفحے کو ترتیب دینے کا اعزاز مجھ خاکسار کو بھی حاصل ہوا۔ سعید واثق کے سبھی دوست اس بات پہ متفق ہیں کہ وہ ایک دردِ دل رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کے بے شمار اشعار زبان زد خاص و عام ہےں۔ سعید واثق نئی نسل کے مقبول ترین نمائندہ شاعر ہیں۔ میں نے جب ان کی کتاب ”سب بھول چکا ہوں“ پڑھی تو فرنٹیئر پوسٹ جیسے انگریزی کے مقبول اخبار کے مالک رحمت شاہ آفریدی کی رائے پڑھ کر جھوم اُٹھا ۔ لکھتے ہیں ”واثق! ماشاءاللہ ایک خوبصورت نوجوان، تن بھی اُجلا من بھی اُجلا۔ اس صحافی، شاعر پیار کرنے والے کی کتاب ”سب بھول چکا ہوں“ میں نے دیکھی تو میرا اندر بھی جگ مگ ہو گیا ۔ بہت کچھ بھول چکا تھا یاد آ گیا۔ توصیفِ حسن اصل میں توصیفِ خالقِ حسن ہے۔ کسی کی کوئی خوبی اس کی اپنی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ہر ہر خوبی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ لہٰذا میں الحمدللہ شکر ادا کرتا ہوں کہ پیارے واثق، کے اس خوبصورت اظہار کا لطف لے رہا ہوں۔“
سعید واثق کی شاعری ایک باشعور
حساس شاعر کے جذبات عمیق کا پرتو اور اظہار ہے کہ درد جہاں کو ایک مخلص انسان ہوتے
ہوئے اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ واثق کا حساس ہونا ہی ان کے آغاز شعر کی بنیاد ہے۔ ان
کے ہاں تجریدیت نہیں بلکہ تجربات و واقعات کا التزام ہے۔ وہ حقائق زندگی کو تلخ نوائی
کی بجائے مٹھاس و شیریں انداز سے پیکر شعر میں ڈھالتے ہیں کہ سختی و درشتی کی بجائے
شگفتگی، نرمی و گداز اسلوب کی بنا بنتے ہیں۔ واثق کی غزلیات اور نظمیں ادب و شعر کا
نامیاتی مرکب ہونے کے ساتھ خوبصورت فکر اور گہری معنویت اور جذبات کی حامل ہیں۔
محبتوں میں سبھی کا اثر لیا ہم نے |
کہ جس نے جیسے کہا، ویسے کر لیا ہم نے |
واثق ایک بااعتماد و پُر
اُمید شخص ہیں، وہ گردشِ دوراں پر سہل کوششوں کی طرح آہ و فغاں اور مایوسی کا اظہار
نہیں کرتے بلکہ مردِ میداں کی طرح ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اس حوالے محمود
انور بٹ کا کہنا ہے کہ ”میں واثق کے بہت قریب اور بخوبی جانتا ہوں کہ وہ ”آہ و فغاں“
کے کیسے کیسے مقامات سے گزرا ہے اور اُس کا یہ سفر بدستور جاری ہے۔ ان ”مقاماتِ آہ
و فغاں“ کو سر کرنے کے لیے اس کے جوش اور ولولے میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ زندگی سے
اس کے تمام تر دکھوں سمیت پیار کرتا ہے اور مصائب سے بھاگنے والوں میں سے ہرگز نہیں
ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ دکھوں اور آزمائشوں سے گزرے بغیر کسی بھی آرٹسٹ کے فن میں پختگی
اور نکھار پیدا نہیں ہو سکتا۔ واثق کے اندر کا دُکھ اُس کی آواز میں بھی موجود ہے اور
اس کی شاعری میں بھی رچ بس گیا ہے۔ اس دُکھ کے اندر ایک پرکشش شگفتگی پیدا کرد ی ہے
جو اُس کی آواز اور اُس کے الفاظ میں گلاب کی طرح مہکتی نظر آتی ہے۔“
پیار کے دیپ جلانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں |
اپنی جان سے جانے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں |
اُس کے عشق میں بھگ کے واثق ہم کو یہ احساس ہُو |
دل کی بات میں آنے والے کچھ کچھ پاگل ہوتے ہیں |
سعید واثق کی غزلوں کی نمایاں
خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی غزلوں میں زندگی گنگناتی، ہنستی مسکراتی نظر آتی ہے۔ ان کے
شعری مجموعوں میں کہاں ہوتے ہو؟، تمہارا عکس ہوں میں، تیرا پیار ہی سب کچھ ہے، دل میں
تم مہکتے ہو، ہر طرف محبت ہے‘ اور ”سب بھول چکا ہوں“ شامل ہیں۔ ان کی غزلوں کو عطاءاللہ
عیسیٰ خیلوی سمیت دیگر گلوکاروں نے بھی گایا۔ وہ پاکستان کے ٹیلی وژن سمیت دیگر چینلز
کے پروگرامز میں بطور مہمان تو کبھی میزبان کی حیثیت سے نظر آتے ہیں۔ بہت عرصے سے ان
کا نیا مجموعہ کلام شائع نہیں ہوا ۔ اسی لیے جاتے جاتے یہی کہوں گا کہ نئی کتاب نہیں
لاتے ہو تو سعید واثق آج کل کہاں ہوتے ہو؟
ہجر میں خون رُلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟ |
لوٹ کر کیوں نہیں آتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟ |
سرد رُتوں میں تمہیں کیسے بھلا سکتا ہوں؟ |
آ گ سی دل میں لگاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟ |
جب بھی ملتا ہے کوئی شخص بہاروں جیسا؟ |
مجھ کو تم کیسے بھلاتے ہو، کہاں ہوتے ہو؟ |
کوئی تبصرے نہیں