SSGC کے شعبہ بلنگ میں لوٹ مار ختم کی جائے

Masroor Ahmed Masroor

کراچی کو ایک بین الاقوامی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے لیکن عملی طور پر ایسا بالکل نہیں ہے کیوں کہ کراچی کے شہری زندگی کے بدترین حالات سے دوچار ہیں، کہنے کو تو ایسا بھی کہا جاتا ہے کہ کراچی پاکستان کا ”کماؤپوت“ ہے وہ پورے پاکستان کو پالتا ہے لیکن خود بھکاریوں سے بھی بدتر حالات سے گزر رہا ہے جو سراسر ناانصافی ہے اور سخت زیادتی کے مترادف ہے۔

کراچی میں تمام یوٹیلیٹی سروسز سے متعلقہ اہم ادارے لوٹ  مارمیں مصروف ہیں اور نہایت ہی چالاکی اور ہوشیاری کے ساتھ شہریوں کی جیبوں کا صفایا کر رہے ہیں، کس کس ادارے کی بات کی جائے سب ہی چوریوں اور بدعنوانیوں میں بری طرح ملوث ہیں۔ کراچی میں عوامی خدمت کے دو ادارے کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی نے تو یہاں کے شہریوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ پہلے تو کے الیکٹرک وہ ادارہ ہے جس نے عوام کو پریشان کرنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ یہ وہ محکمہ ہے جو کسی حکومت کے قابو میں نہیں آتا، اس ادارے کی دیکھادیکھی سوئی سدرن گیس کمپنی نے بھیK-Electric کی اختیار کی گئی راہ پر چلنے کا تہیہ کر لیا ہے اور محکمہ کراچی الیکٹرک کی طرح اپنے صارفین کی جیبوں سے غلط طریقے سے پیسے نکالنے کا وتیرہ اختیار کر لیا ہے۔ حکومت کی طرف سے بجلی اور گیس کے جو بم گرائے جاتے ہیں وہ تو عوام برداشت کر لیتی ہے لیکن اس کے علاوہ ان اداروں نے ایسی الگ الگ (Pockets)بنا رکھی ہیں جن کے نام پر شہریوں اور صارفین کو لوٹا جاتا ہے جو نہایت ہی افسوس ناک ہے۔ سابقہ ایک حکومت میں سب نے دیکھا کہ ایک گیس کمپنی نے کس طرح اپنے صارفین کو کروڑوں روپے کے غلط بل بھیج کر کارنامہ انجام دیا تھا جس کا اس وقت کے وزیر اعظم نے سخت نوٹس لیا تھا اور صارفین سے غلط طریقے سے وصول کی گئی کروڑوں روپے کی رقم فوری واپس کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ یہ گیس کمپنی کی غلط انداز میں کی گئی لوٹ مار ہی تھی کہ ایک وفاقی وزیر غلام سرور کو اپنی وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن آج بھی گیس کمپنی غلط طریقے سے بل جاری کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے گیس کے نرخوں میں جو اضافے کیے جا رہے ہیں وہ اپنی جگہ ہیں لیکن اس اضافے سے ہٹ کر سوئی گیس کمپنی کا شعبہ بلنگ اپنے طور پر جو ہیرا پھیری کر رہا ہے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا جا رہا اورسوئی سدرن گیس کمپنی نے صارفین کو شعبہ بلنگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ سیاہ سفید کے مالک ہیں، مختلف قسم کے چارجز لگا کر صارفین سے رقم بٹور رہے ہیں جو  شایدسوئی سدرن گیس کے منیجنگ ڈائریکٹر کے علم میں بھی نہ ہوں گے ، اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ مذکورہ محکمہ کے تمام اعلیٰ افسران کے ماہانہ گیس بل ”معاف“ ہیں۔ لہٰذا جب افسران کے ماہانہ گیس بل معاف ہوں تو انھیں شعبہ بلنگ میں غلط طریقے سے کی جانے والی بلنگ کے بارے میں جاننے بوجھنے کی بھلا کیونکر ضرورت پیش آئے گی۔ یہاں بلنگ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کی جانے والی کارستانیوں کو مختصراًسوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام بالا کے نوٹس میں لاتے ہوئے ان سے درخواست کریں گے کہ ان غلطیوں کا ازالہ کیا جانا چاہیے۔

گیس بلوں میں میٹر ریڈنگ کے کالم میں درج گزشتہ ماہ لی گئی ریڈنگ اور رواں ماہ لی گئی ریڈنگ کا فرق جو ظاہر کیا جاتا ہے ، اس کی کیلکولیشن زیادہ تر بلوں میں غلط ہوتی ہے اور غلط یونٹس پر بلنگ کی جاتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ تمام نظام کمپیوٹرائزڈ ہونے کے باوجود ایسی غلطی کیوں کر سرزد ہو سکتی ہے؟ لیکن ایسا ہوتا آ یا ہے اور یقینا اب بھی ہو رہا ہے۔ یہ ہر طرح سے ایک جرم ہے، چوری ہے، گیس والے صارفین کی گیس چوری کو پکڑتے ہیں لیکن وہ جس طریقے سے بلوں کی تیاری میں غلط اعداد و شمار ظاہر کرکے چوری کرتے ہیں اس کی سزا انھیں کون دے گا اور کب دے گا؟ اگر کوئی صارف کسی وجہ سے گیس استعمال نہیں کر پاتا تو اسے Slow Meter قرار دے کر اس پر PUG Charges لگا کر پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ Pressure Factor کے نام پر بھی صارفین سے ماہانہ بلوں میں چارجز وصول کیے جا رہے ہیں۔ ایڈیشنل سیکیورٹی ڈپازٹ کے نام پر بھی صارفین کی جیبوں سے پیسے نکالے جا رہے ہیں جو سراسر ناجائز اقدام ہے، اس کے علاوہ بھی بلنگ ڈپارٹمنٹ والوں کی طرف سے مختلف چارجز کی مد میں صارفین کو لوٹا جا رہا ہے۔ میرے پاس گیس بلوں سے متعلق بہت سے معاملات ہیں جس سے اوگرا کے محکمہ شکایات کو آگاہ کیا گیا اور انھوں نے ان شکایات کے جواب میں بتایا کہ گیس کمپنی غلط طریقے سے بلوں میں یہ چارجز عائد کر رہی ہے، اگر اس سلسلے میں گیس کمپنی کے ایم ڈی دلچسپی لیں تو ان کے سامنے یہ تمام کیس رکھے جا سکتے ہیں۔

مجھے گیس کمپنی کے شعبہ بلنگ کی شعبدہ بازیوں کے بارے میں یہ سب کچھ لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ گلشن اقبال میں ایک فلیٹ میں سالوں سے مختلف وجوہات کی بنا پر گیس استعمال نہیں ہو رہی لیکن 20 سال سے بھی زیادہ عرصہ کے نارمل بلوں کی ہزاروں روپے کی ادائیگی ہوتی رہی ہے، پھر گیس والے میٹر نکال کر لے گئے، نیا میٹر لگوانے میں رشوت سمیت ہزاروں روپے کا خرچہ برداشت کرنا پڑا۔ ہر ماہ نارمل بل جو عام طور پر گیس استعمال کرنے پر آتا ہے ڈھائی سو روپے کے قریب وہ ادا کیا جاتا رہا ہے، اس کے بعد گیس میٹر جو استعمال نہ ہونے کے باعث رُکا رہا تو ہر ماہ غلط میٹر ریڈنگ ظاہر کرکے بل وصول کیے جاتے رہے، جب حکام بالا سے شکایت کی گئی تو وہ تمام رقم واپس کی گئی، اس کے بعد گیس میٹر پر تالہ لگائے رکھا، جب گیس کے افسران کو اطلاع دی گئی تو بتایا گیا کہ تالہ کھول دیا گیا ہے، اس کے بعد کرائے دار رہنے لگے، انھیں گیس استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی تو گزشتہ کئی مہینوں سے میٹر نہ چلنے کو Slow Meter قرار دے کر PUG Charges بلوں میں لگا کر بھیجے جانے لگے۔

سوئی سدرن گیس کے ایک صارف انور حسین (کنزیومر نمبر: 04640640000) کو گیس کمپنی کے شعبہ بلنگ نے 2019 اور 2020 میں گیس بلنگ کے حوالے سے بہت پریشان کیا، پہلے ان کے گھر پر لگا گیس کا میٹر بغیر کسی وجہ اور بغیر بتائے نکال کر لے گئے ساتھ ہی بل میں 8,739روپے کے چارجز PUG کے نام سے لگا کر بھیج دیے گئے۔ صارف نے سوئی گیس کمپنی کے اعلیٰ حکام سے شکایت کرنے کے ساتھ ساتھ اس وقت کے وزیر اعظم کو بھی درخواست ارسال کی جس کے بعد وہ رقم گیس بل میں کریڈٹ کی گئی۔ بعدازاں سترہ مہینوں میں 402 یونٹس کی بلنگ کی اضافی بلنگ کی گئی، جس کی شکایت اوگرا سے کی گئی جس کا شعبہ شکایات جو اپنی ذمے داریاں بہت موثر طریقے ادا کر رہا ہے نے تمام معاملے کی تحقیقات کرنے کے بعد صارف انور حسین کے حق میں تفصیلی فیصلہ جاری کیا اور بلوں کے ذریعے زیادہ وصول کی گئی رقم واپس کرنے کے لیے کہا گیا اس طرح سوئی سدرن گیس کمپنی کے شعبہ بلنگ نے مذکورہ صارف سے اضافی وصول کی گئی رقم کی  واپسی کو یقینی بنایا،لیکن ساتھ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ مذکورہ صارف کو چار پانچ سال بعد دوبارہ گیس بلوں میں اضافی بل بھیج کرپریشان کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے جس کی تمام تر تفصیلات پر مبنی ایک تحریری درخواست اوگرا کے چیئرمین سوئی سدرن گیس کے منیجنگ ڈائریکٹر اور اوگرا کے کراچی ریجنل آفس میں تعینات جوائنٹ ڈائریکٹر خلیل شیخ صاحب کو ارسال کر  دی گئی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ متعلقہ افسران سوئی سدرن گیس کمپنی کے شعبہ بلنگ کے اس اقدام پر کیا کارروائی عمل میں لاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف سے اخبارات میں کروڑوں روپے کے اشتہارات شایع ہو رہے ہیں کہ ”گیس بچائیں، بچوں کا مستقبل محفوظ بنائیں“۔ جہاں گیس استعمال نہیں ہو رہی وہاں شعبہ بلنگ PUG Charges لگا کر بل بھیج رہا ہے ، کیا یہ مذاق نہیں؟ گیس صارفین کو بھی بہت محتاط ہو کر اپنے گیس بلوں کو چیک کرنے کی ضرورت ہے اور غلط بلوں کے سلسلے میں اپنی شکایات اوگرا کو ارسال کریں تاکہ گیس کمپنی کے شعبہ بلنگ کی ہیرا پھیریوں کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکے۔

کوئی تبصرے نہیں