وکلا پر مشتمل منتشر پارٹی
پی ٹی آئی ملک کی واحد سیاسی پارٹی ہے، جس کی موجودہ قیادت بیرسٹر گوہر خان کر رہے ہیں اور پارٹی کا دوسرا اہم جنرل سیکریٹری کا عہدہ سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کے پاس ہے اور یہ دونوں رہنما ماضی میں پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی میں کسی بھی چھوٹے عہدے پر نہیں رہے اور نہ دونوں کی کوئی سیاسی شہرت تھی بلکہ سلمان اکرم راجہ کے برعکس بیرسٹر گوہر خان کا سیاست کیا وکالت اور وکیلوں کی سیاست میں بھی کوئی مقام نہیں تھا مگر پی ٹی آئی کے بانی کے سوا سال سے جیل میں رہنے اور نااہلی کے باعث بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ سمیت متعدد ایسے وکلا کو سیاست میں نمایاں ہونے کا موقعہ مل گیا۔ ملک خصوصاً کے پی کے بعض وکیلوں کو پی ٹی آئی کے عہدوں کی وجہ سے پارلیمنٹ میں پہنچنے کا موقعہ مل گیا جنھوں نے کبھی کونسلر کا الیکشن بھی نہیں لڑا تھا اور وہ پہلی پارلیمنٹ میں موجود ہیں۔
ایک سابق جج نے پی ٹی آئی
میں آ کر اس قدر جارحیت دکھائی کہ وہ میڈیا میں چھا گئے اور سیاسی حلقے انھیں بانی
جیسی مقبولیت حاصل کرنے کے بعد سمجھ رہے تھے کہ بانی انھیں پارٹی کی قیادت عارضی طور
پر سونپ دیں گے مگر انھوں نے اپنی مقبولیت کے زعم میں سعودی عرب پر الزام لگا دیا کہ
وہ بھی بانی کی حکومت ختم کرانے کا ایک کردار رہا ہے۔ ان کے الزام کی پارٹی نے تردید
بھی کی اور ان کے بیان کو ان کا ذاتی بیان قرار دیا مگر موصوف نے اپنا بیان واپس نہیں
لیا۔ یہ موصوف پی ٹی آئی میں اپنے جارحانہ بیانات سے اتنے مشہور ہوئے کہ ملک کے بڑے
شہروں میں اپنی جارحانہ تقاریر سے خود کو قومی رہنما سمجھنے لگے جس پر انھیں پی ٹی
آئی کے اہم عہدوں سے ہٹایا گیا مگر بعد میں بانی نے انھیں بخش دیا مگر وہ پی ٹی آئی
کے باعث قومی اسمبلی میں پہنچ گئے اور ان کی اونچی پرواز دیکھ کر پارٹی کے دیگر رہنما
بھی ان کے خلاف ہوگئے۔ انھوں نے بھی پارٹی عہدیداروں کے خلاف بیانات بھی دیے پھر معذرت
بھی کی مگر وہ پارٹی میں اپنی حمایت میں دو گروپ بنوانے میں ضرور کامیاب رہے۔ یہ موصوف
سمجھتے ہیں کہ بانی نے جن وکیلوں کو اہم عہدے دیے وہ نہیں چاہتے کہ بانی رہا ہوں اور
وہ اسی لیے بانی کی رہائی کے لیے کوئی موثر مہم اس لیے نہیں چلا رہے کہ بانی کی رہائی
سے ان کے عہدے اور سیاست ختم ہو جائے گی۔ ان وکلا عہدیداروں پر پارٹی میں مبینہ طور
بالاتروں کا ایجنٹ ہونے کا بھی الزام ہے۔
بالاتروں کی نمایندگی کا
الزام تو کے پی کے وزیر اعلیٰ پر بھی ہے جن کے لیے مشہور ہے کہ وہ دکھاﺅے کے لیے تو سخت سیاسی بیانات
دیتے اور بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں مگر ان کا عمل الٹ ہوتا ہے۔ انھوں نے دو ماہ قبل
اسلام آباد کے جلسے میں دو ہفتوں میں بانی کو رہا کرانے کا اعلان کیا تھا جو اب تک
پورا نہیں ہوا۔ وزیراعلیٰ کے پی سرکاری وسائل لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور
ڈی چوک پر دھرنا دینے نکلتے ہیں مگر اسلام آباد داخلے سے قبل رات کی تاریکی میں اپنے
کارکنوں کو چھوڑ کر کہیں غائب ہو جاتے ہیں اور کبھی آٹھ 28 گھنٹے کہیں غائب رہ کر خالی
جیب اور بغیر گاڑی بارہ ضلع عبور کر کے پشاور پہنچ جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے موجودہ اہم
رہنماؤں میں ایک اہم نام لاہور کے مشہور وکیل حامد خان کا ہے جو بانی پی ٹی آئی کے
پرانے ساتھی اور بانی ارکان میں سے ایک باقی بچے ہیں کیونکہ باقی بانی ارکان، بانی
کی من مانیوں کی وجہ سے پہلے ہی الگ ہوگئے تھے۔ حامد خان وکلا میں اپنے گروپ کے قائد
بھی ہیں مگر حکومت میں آنے کے بعد بانی نے انھیں اہمیت نہیں دی تھی اور وہ پارٹی میں
کھڈے لائن لگ گئے تھے اور متعدد پارٹیاں بدل کر پی ٹی آئی میں آنے والے جونیئر وکیل
فواد چوہدری کو بانی نے حامد خان پر ترجیح دے کر وفاقی وزیر بنایا تھا جو حامد خان
کے خلاف بیان بازی میں مشہور رہے مگر بانی نے انھیں کبھی اپنے سینئر اور بانی رکن حامد
خان کے خلاف بیان دینے سے نہیں روکا مگر حکومت جانے کے بعد فواد چوہدری نے استحکام
پارٹی کے پہلے اجلاس میں جانے کی سزا پائی اور راندہ درگاہ قرار پائے اور اب دوبارہ
آنا چاہتے ہیں مگر بانی نہیں مان رہے اور مجبوری میں بانی اب حامد خان کو اہمیت دے
رہے ہیں جو قاضی فائز عیسیٰ کی وکالت کرتے رہے تھے جبکہ بانی خود جسٹس قاضی کے خلاف
تھے مگر اقتدار سے برطرفی کے بعد انھیں حامد خان یاد آئے تھے اور حامد خان پرانی باتیں
چھوڑ کر حاضر ہو گئے تھے اور آج سینئر تو ہیں مگر پارٹی کا کوئی اہم عہدہ ان کے پاس
نہیں حالانکہ موجودہ وکلا عہدیداروں میں وہ سب سے سینئر رہنما ہیں اور نظر انداز رہنے
کے باوجود وہ بانی کے وفادار ہیں اور بانی شاید اس سینئر وکیل کو پارٹی میں کوئی عہدہ
اس لیے نہیں دے رہے کہ انھیں حامد خان پر اب بھی اعتماد نہیں ہے ورنہ حامد خان بیرسٹر
گوہر کے مقابلے میں بانی پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں بہترین چیئرمین ثابت ہوتے مگر
بانی کو اس عہدے پر کسی کمزور چیئرمین کی ضرورت تھی اور سیاست میں نووارد گوہر خان
بانی کی جگہ چیئرمین ایسے چیئرمین ثابت ہوئے ہیں کہ جن کی پی ٹی آئی پر گرفت مضبوط
تو کیا ہوتی ان کی وجہ سے پارٹی چار گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور بعض وکلا ان کی
جگہ لینے کی کوشش ضرور کر رہے ہیں۔
امریکا میں چھپے ہوئے پی
ٹی آئی رہنما نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان میں لوگ کسی وکیل کو کرائے پر مکان
نہیں دیتے مگر پوری پی ٹی آئی وکیلوں کے حوالے کر دی گئی ہے۔ اس بھگوڑے رہنما کے برعکس
بانی پی ٹی آئی نے کروڑوں روپے کی وکیلوں کی فیسوں سے بچنے کے لیے اپنے مالی مفاد میں
یہ فیصلہ کیا ہے اور اپنی پارٹی ان وکیلوں کے حوالے کر دی ہے جن کی سیاست میں دلچسپی
اس حد تک ہے کہ پی ٹی آئی کی وجہ سے وہ آج پارلیمنٹ میں ہیں اور اپنی سیاسی ناتجربہ
کاری سے پی ٹی آئی کو کمزور کر چکے ہیں اور بانی کی خواہش کے مطابق ان کی رہائی کے
لیے ملک میں کوئی موثر احتجاج بھی نہ کراسکے اور غیر موثر احتجاج کی تفصیل بھی بانی
کے ایک وکیل فیصل چوہدری جیل جا کر بانی کو بتا چکے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں