”روشن ستارہ“

تحریر: ڈاکٹر انورجہاں برنی

 آج کے اس پر فتن دور میں جب علمی ، ادبی اور تحقیقی افق پر جگمگاتے ستارے خال خال نظر آتے ہیں ، ایک نام ذہن کے قرطاس پر ضرور ابھرکر آتا ہے اور وہ نام ہے ” انجینئر مسعود اصغر کمالی“ کا۔ اس کم سنی میں جس انداز میں ان کی یہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں وہ اس بات کو یقینی بنا رہی ہیں کہ یہ ستارہ آسمانِ ادب پر انشاءاللہ بڑی آب و تاب سے جگمگائے گا۔ مندرجہ بالا ٹائٹل مسعود کمالی کو ان کے مادر علمی جامعہ سرسید کے ساتھیوں نے دیا۔ مسعود اصغر کمالی ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاندان کے سرپرست اعلیٰ پروفیسر اللہ بخش کمالی ماہر ِریاضیات تھے ، ان کی کتابیں ریاضی کی منفرد کتابوں میں شمار کی جاتی تھیں اور برصغیر پاک و ہند کے مدارس میں ایک طویل عرصے تک پڑھائی جاتی رہی تھیں۔ والد پروفیسر عبد الحمید کمالی فلسفہ اور علومِ اسلامیہ کی روایت کا ہمیشہ ایک مستند اور معتبر حوالہ رہے ، علمی و فلسفیانہ حلقوں میں پاکستان کی شناخت تھے۔ آپ کی نظر بیک وقت مغربی اور اسلامی فلسفے پر ہوتی انہی وجوہات پر اہلِ علم نے آپ کو ” مشرق کے فلسفی“ کے خطاب سے نوازا۔ آپ کی والدہ رضی انساءکمالی جنہوں نے تدریسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان قومی ہجرہ کمیٹی ، اسلام آباد میں منعقدہ جلسوں میں مقالات پیش کیے اور پرائمری و ثانوی تعلیم کے سلسلہ میں بھی نہایت فکر انگیز تجاویز پیش کیں۔ آپ جامعہ سرسید اور جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل ہیں۔



اس ادبی ماحول میں پروردہ مسعود اصغر نے بھی انجینئرنگ کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ کالم نگاری/ اظہاریہ نویسی کے محاذ کو اپنایا۔ ان کے کالم خصوصا روزنامہ جنگ اور روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوتے رہے جن میں سے چند مخصوص کالمز ”خودی کوکر بلند اتنا“ یہ آپ کا تحقیقی طویل مقالہ ہے جس میں آپ نے علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثری خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ آپ کا اسلامی کالم ”اسلام کے بنیادی عقائد جس میں آپ نے بڑے ہی جامع انداز میں دینِ حق کے بنیادی عقائد اور ان پر ایمان جو کہ دین کا لازمی تقاضا ہے، کو قلم بند کیا ہے۔ آپ اس کالم میں لکھتے ہیں کہ ” ایمان کا اقرار صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ دل سے بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہی ایک مومن کی معراج ہے “ ، اس کالم کو قارئین کی اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ ٹھیک ایک سال بعد اسے اسی دینی صفحے پر اس کی دوبارہ اشاعت ہوئی۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی والدین کی نافرمانی کے سبب آپ نے ایک اور طویل اظہاریہ قرآن و حدیث اور اسلامی واقعات کی روشنی میں قلم بند کیا جس کا مختصرا جائزہ روزنامہ ایکسپریس کے دینی صفحے ” دین و دانش“ میں بھی آپ نے لیا۔ استاد کی عظمت پر آپ کے اظہارےے کی اشاعت بہ عنوان ”علم اور معلم“ میں آپ نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ انسانی وقار کا راز ”علم“ میں ہی ہے، علم کی بدولت ہی انسان کو ” اشرف المخلوقات“ کا درجہ عطا ہوا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کی حیات ، امت پر اور حقوقِ نسواں پر ان کے بے شمار احسانات پر مبنی آپ کا اظہاریہ اور دیگر اسلامی کالمز آپ کی الحمد اللہ کتاب ” دینِ مبین“ میں شامل ہیں۔



آپ کا اظہاریہ ” جناح سے قائداعظمؒ تک “ جس میں آپ نے قائداعظم ؒکی حیات اور اہم ملی و قومی خدمات و واقعات کا مختصرا جائزہ لیا ہے، قائد شناسی کے سلسلے میں یہ ایک بہترین تحریر ہے۔ معاشرے کی بے رنگی کے حوالے سے آپ کے کالم میں دورِ حاضر کی بیٹیوں کی تربیت اور ان کے رشتہ ازدواج سے منسلک ہونے کے بعد ان کی والدہ کی سرپرستی میں رشتوں کی بے توقیری کا ایک مفصل جائزہ ہے ۔ پاکستان کے نامور بزنس اسکول آئی بی اے کی تشکیل میں ڈاکٹر عبدالوہاب کے کردار کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے ،اس حوالے سے آپ کا کالم انتہائی متاثرکن ہے اور اس دور کی کچھ اہم روایتوں کو زندہ کرنے کی کوشش میں اہمیت کا حامل ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی متاثر کن سیاسی پالیسیوں اور اقلیتوں کے ساتھ ان کے مثالی رویہ پر آپ نے ایک جامع کالم لکھا جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے بلکہ وطن عزیز کے سیاستدانوں کو یہ اظہاریہ ایک دعوتِ عمل بھی دے رہا ہے۔ ”پی ٹی وی“ پر آپ کا اظہاریہ انتہائی قابلِ تعریف ہے کہ کس طرح اس ادارے نے اپنے پیارے وطن کے سرمائے کی آبیاری کی، تربیت کی۔ بلاشبہ پی ٹی وی کو قرار واقعی ایک درسگاہ کی اہمیت حاصل رہی۔ اس دور میں اس عظیم ادارے میں کتنی عظیم الشان ہستیاں ہوتیں ، کتنے ادبی تحقیقی اور تخلیقی پروگرامز اس میں دکھائے جاتے۔ ’ تعلیم‘ کے موضوع سے ان کو خصوصی دلچسپی ہے جس کی بنیادی وجہ ان کے خاندان بھر کے تمام افراد کا شعبہ تعلیم سے وابستہ ہونا ہے۔ تعلیمی نظام کی زبوں حالی ، چاک اور ڈسٹر، دی نیچر آف اسلامک اسٹیٹ ، شعبہ تعلیم : عدم توازن اور نا انصافی وغیرہ جیسے دیگر اظہاریے میں انھوں نے مادرِ وطن میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے حل کیلئے مفید تجاویز بھی دیں، جس سے آپ کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے۔ اس کے علاوہ مسعود اصغر کمالی کی توجہ کراچی کے تعلیمی میدان میں نبرد آزما خواتین کی کاوشوں پر بہت گہری ہے۔ ان کا کالم بہ عنوان ” گولڈن گرلز“ محض ایک اظہاریہ ہی نہیں بلکہ کراچی کی خواتین کی ان تمام کوششوں کی تاریخ ہے جو وجود ِپاکستان کے فورا بعد سے اور اب تک صحت اور تعلیم کے شعبے میں انجام دیتی رہی ہیں اور نہایت نامساعد حالات میں بھی پرخلوص جذبہ و لگن کے ساتھ مصروفِ عمل رہی ہیں یہاں میں بینکنگ کے شعبے سے وابستہ بعض نامور خواتین کے نام شامل کرنا ضروری سمجھتی ہوں جن  میں اکرم خاتون ، راشدہ سعید ،خورشید مقصود علی ، رعنا شاہین خان اور دیگر یہ وہ باہمت خواتین ہیں ، جنہوں نے اقتصادی میدان میں سخت محنت کرکے اس شعبے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ 



رعنا شاہین خان مسعودکمالی کی ہمشیرہ ہی نہیں بلکہ پاکستان کے نامور بزنس اسکول آئی بی اے کی نہ صرف فارغ التحصیل ہیں بلکہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ وہ اپنی مادرِعلمی کے ججز پینل میں بھی شامل رہیں۔ اپنی اعلیٰ کارکردگی کی بناءپر ، ان کا شمارڈاکٹرعبدالوہاب اور ڈاکٹرمہناز فاطمہ کی لائق شاگردوں میں ہوتا ہے۔ عموما زمانے کا یہی انداز ہے کہ جس وقت تک خدمات انجام دینے والی شخصیات اپنے عہدہ پر مصروفِ کار ہوتی ہیں ان کے کارناموں کو مختلف انداز میں سراہا جاتا ہے ان کی تعریف و توصیف بڑی صداقت اور خلوص کے ساتھ ضرور کی جاتی ہے، لیکن کچھ عرصہ بعد ان عظیم ہستیوں کا ذکراذکار پردہ نسیاں میں چلا جاتا ہے۔ مسعود کمالی کی یہ ادبی کاوش بھی جو گولڈن گرلز کے عنوان سے صفحہ قرطاس پر آئی ہے وہ یقینالائقِ صد تحسین ہے کہ قوم کے نونہاران خصوصا اوسط اور غریب گھرانوں کی طالبات کی تعلیم وتربیت اور ان کی شخصیت میں پوشیدہ صلاحیتوں کو ابھارنے میں ان خواتین نے جو قدم اٹھائے مسعود کمالی نے ان اقدام کو ہم سب کے سامنے پیش کیے کہ باوجود ایک نوزائیدہ مملکت میں رونما ہونے والے گوناگوں مسائل و مصائب کو جواں مردی اور خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتی رہیں۔ تعلیم کے ساتھ صحت کا مسئلہ بھی خواتین کے لیے کچھ کم نہ تھا۔ لیڈی ڈاکٹرزصاحبان بھی اس معاملے میں کسی سے پیچھے نہ رہیں،مسعود کمالی نے بہت جامع انداز میں ان تمام خواتین کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو صحت و تعلیم کے سلسلہ میں بہترین سہولتیں فراہم کرنے والی اور معیارِ زندگی کو اعلیٰ درجہ پر پہنچانے کے سلسلہ میں ان مخلص خواتین کو اپنی ذاتی زندگی میں جو بھی مسائل پیش آتے رہے وہ مخلص سپاہ کی طرح اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر بڑے خلوص اور خندہ پیشانی کے ساتھ دامے، درمے، سخنے اپنے قومی فرائض کو انجام دیتی رہیں۔ مسعود اصغر کی یہ کاوش”گولڈن گرلز“ محض ایک تذکرہ ہی نہیں بلکہ آیندہ آنیوالی خواتین کے لیے ایک کبھی نہ بجھنے والی مشعل راہ بھی ہے۔ میں مبارکباد پیش کرتی ہوں مسعوداصغرکمالی کو اور ان سے امید ِواثق رکھتی ہوں کہ وہ آیندہ بھی ایسی ہی محنتی اور مخلص خواتین کے زریں کارناموں کو دھندلانے نہیںدیں اوراپنی بے لاگ تحریروں سے ان کی جگمگاہٹ کو مزید اجاگر کریں گے۔ ماشاءاللہ ایسے کئی کالمز ہیں مسعودکمالی کے جن کے بارے میں اس مختصر سے کالم میں اظہار کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔



انجینئرمسعوداصغرکمالی کی اب تک تین کتابیںجن میں ” بیگم رضی حمیدکمالی: ایک شخصیت،ایک دور،مقالاتِ عبدالحمید کمالی،دینِ مبین:رشدوہدایت کا دائمی منشور،مومنو ں کی فلاح کا نسخہ کیمیا“ منظرِعام پر آچکیں اور ایک کتاب"Islam its Socio-Political Dynamics and Status Of Man"(انگریزی میں) اشاعت کے مراحل میں ہے اور دوکتابیں ”گوہرِنایاب“ اور ”ہماراسماج(سماجیات)“ ابھی کمپوزنگ کے مراحل میں ہیں ، انشاءاللہ جلد دستیاب ہونگی۔

اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ

کوئی تبصرے نہیں