جدوجہد آزادی کا اہم کردار سورہیہ بادشاہ
ہیروز اپنی قوم، اپنے معاشروں کو زندہ رکھتے ہیں، یہ عزم اور جدوجہد کے مینارہ نور ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں، انہیں گمنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے بجائے اپنے بچوں کو، نئی نسل کو ان کی بہادری اور دلیری کے قصے سنا کر بڑا کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ہیرو جن کا نام روشن حروف سے جگمگانا چاہیے تھا، انھیں تاریخ کے اوراق میں جان بوجھ کر گم کیا جا رہا ہے اور وہ نام ہے سندھ کے شیر سورہیہ بادشاہ پیر پگارا کا۔ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ ثانی المعروف، سورہیہ بادشاہ نہ صرف ایک بہادر جنگجو سپاہی تھے بلکہ ایک سچے محب وطن بھی تھے۔ آپ کے خاندان اور حُر تحریک نے نا صرف انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگیں لڑی بلکہ 1965 اور 1971 جنگ میں بھی سندھ کے محاذ پر پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
برطانوی راج میں حُر تحریک
نے کئی بار آزادی کا پرچم لہرایا۔ پیر پگارا خاندان اور ان کے مریدین حروں نے جس بہادری
سے انگریزوں کے خلاف علم حق و آزادی بلند کیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حر تحریک کا نعرہ،
جو سورہیہ بادشاہ نے تیار کیا تھا، وطن یا کفن، آزادی یا موت، لوگوں کے جذبات، اپنے
وطن اور قومی شناخت سے ان کی محبت کی عکاسی کرتا تھا۔ سورہیہ بادشاہ کی قیادت میں مرد
و خواتین پر مشتمل ان کے ہزاروں پیروکاروں نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی اور سندھ
سے غیر ملکی حکمرانوں کو نکال باہرکرنے کی جدوجہد شروع کی۔ انگریزوں نے اس بغاوت کو
کچلنے کی بھرپورکوشش کی۔ ہزاروں حر جنگجوؤں کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، قید
کیا گیا اور موت کی سزا دی گئی۔
سال 1900 میں انگریزوں نے
بدنام زمانہ قانون حر ایکٹ پاس کیا جس میں پوری حر برادری کو مجرم قرار دیا گیا اور
دیکھتے ہی دیکھتے گولی مارنے کا حکم دیا گیا۔ سندھ اسمبلی نے مارچ 1942 کو سندھ حر
آپریشن ایکٹ منظور کیا اور یکم جون 1942 کو حر آبادیوں میں مارشل لا نافذ کیا گیا۔
انگریزوں کی برصغیر میں دور حکومت میں صرف ایک علاقے میں مارشل لا لگا اور وہ سندھ
تھا۔ بالآخر پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ کو 20 مارچ 1943 کو صرف 34 سال کی عمر میں
حیدر آباد جیل میں بغاوت کے کیس میں مارشل لا عدالت نے جیل کے اندر ہی کیس چلا کر پھانسی
دے کر شہید کر دیا۔
ان 34 برسوں میں دس سال وہ انگریزوں کی غلامی نہ کرنے کے
باعث ہندوستان کے مختلف جیلوں، رتنا گری، راج شاہی، پونے، میں قید رہے۔ ایک ماہ کے
اندر مکمل کیے جانے والے ٹرائل کے دوران انہوں نے قائداعظم کی معاونت حاصل کرنا چاہی
لیکن قائداعظم کو ان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان کے ساتھ ان کے پانچ سو سے
سات سو حروں کو بھی پھانسیاں دی گئیں۔
سورہیہ بادشاہ کی تدفین کے مقام کو آج تک انتہائی خفیہ رکھا
گیا ہے۔ پیر پگارا سورہیہ بادشاہ کی شہادت ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جسے بدقسمتی
سے ہر دور حکومت میں مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سورہیہ بادشاہ نے برطانوی سامراج
( جس کا سورج دنیا میں غروب نہیں ہوتا تھا) کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ انہوں نے لازوال
قربانیوں کی داستان رقم کی اور چھتیس ہزار حر فوج نے شہادتوں کا تحفہ پیش کیا جس کے
لیے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ سندھ حکومت سے مطالبہ ہے کہ سورہیہ بادشاہ کی درخشاں
تاریخ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
20مارچ یوم شہادت سورہیہ بادشاہ پر عام
تعطیل کا اعلان کیا جائے۔ انگریزوں نے جو حر ایکٹ پاس کیا تھا، سندھ اسمبلی کثرت رائے
سے اسے مسترد کر دے۔ سندھ اسمبلی جنگ آزادی کے ہیرو سورہیہ بادشاہ کو خراج عقیدت پیش
کرے اور انگریزی سرکار کے پھانسی کے فیصلے کی شدید مذمت کرے۔ سورہیہ بادشاہ کا کیس
دوبارہ کھولا جائے، اگر بھٹو کی پھانسی کا دوبارہ کیس سنا جا سکتا ہے تو سورہیہ بادشاہ
پیر پگارا کا کیس کیوں نہیں سنا جا سکتا؟ کیونکہ جس طرح بھٹو ملٹری کورٹ کا شکار ہوئے
تھے، اسی طرح سورہیہ بادشاہ بھی ملٹری کورٹ کا شکار تھے۔
مر ویسوں سندھ نہ ڈیسوں
جواب دیںحذف کریں