اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام جشن آزادی مشاعرہ کا انعقاد
کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی
ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام جشن آزادی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت
ڈاکٹر ذاکر حسین عادل ایڈوکیٹ نے کی مہمان خصوصی ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی (دبئی) تھے۔
صدارتی خطاب میں ڈاکٹر ذاکر حسین عادل ایڈوکیٹ نے کہا کہ اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی
ملک بھر میں ہر طرف سبز ہلالی پرچم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کل شام کو آفس سے گھر آیا تو
گلی میں دس سے بارہ سال کے چھوٹے چھوٹے بچے سیڑھی لے کر گھوم رہے تھے اور پوری گلی
میں جھنڈیاں لگا رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئے تو بچوں
نے کہا کہ ہم نے جھنڈیوں کے لئے جیب خرچ سے پیسے بچا کر رکھے تھے۔ بچوں کا جذبہ دیکھ
کر مجھے بہت خوشی ہوئی اور اس بات کا افسوس بھی کہ آج کی نوجوان نسل اپنے کاموں میں
اتنا مصروف ہو چکی ہے کہ وہ یوم آزادی منانا ہی بھول گئی ہے۔ ہمیں ان چھوٹے چھوٹے بچوں
سے سیکھنا چاہیے جن کے دلوں میں ہم سے زیادہ حب الوطنی ہے۔ آج کی نوجوان نسل یوم آزادی
مناتی تو ہے مگر وہ پہلے جیسا جوش و جذبہ نظر نہیں آتا۔ نوجوان نسل کو یہ یاد رکھنا
چاہیے کہ اگر آج ہم آزاد ملک میں سانس لے رہے ہیں تو ان شہیدوں کی وجہ سے جنہوں نے
اپنا کل ہمارے آج کے لئے قربان کیا۔
پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں شہداءکا خون شامل ہے۔ ایک آزاد مملکت کے لئے مسلمانوں نے بے شمار قربانیاں دیں۔ تاریخ گواہ ہے بھارت سے آنے والی ٹرین مسلمانوں کی لاشوں سے بھری ہوئی لاہور پہنچی تو بھی یہاں کے مسلمانوں نے پاکستان میں رہنے والے ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو تحفظ فراہم کیا۔ مہمان خصوصی ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی نے کہا کہ ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، مقبوضہ کشمیر بھی ہندوستان کے مظالم کی داستانوں میں سے ایک داستان ہے۔ آج جب ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت دیکھتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ آزادی ایک نعمت ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے ہم پر جو احسان کیا ہے ہم وہ احسان کبھی نہیں اتار سکتے مگر ہم پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا کر قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو تسکین پہنچا سکتے ہیں۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا۔ ”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے۔ آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو۔ ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔“
بابائے قوم قائداعظم محمد
علی جناح کی 11 اگست کی تقریر سے اقتباس آزادی ایک بڑی نعمت ہے اس سے بڑھ کر دنیا میں
کوئی چیز نہیں۔ آزادی کا دن منانا بھی ہم سب پر لازم ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر
مسلم بھی یوم آزادی پاکستان جوش و جذبے سے مناتے ہیں کیونکہ یہ جناح کا پاکستان ہے
جہاں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے
اور اس کی حفاظت ہماری اجتماعی اور قومی ذمہ داری ہے۔ آزادی کی قدر و قیمت مقبوضہ کشمیر
اور فلسطین کے مسلمانوں سے پوچھنی چاہیے جو بھارت اور اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں۔
آزادی کا جشن مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ پاکستان کی ترقی کے لیے ہر ممکن کوشش
کرینگے، وطن عزیز کی سالمیت پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے اور وقت آنے پر پاک فوج، پولیس
اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے جو دہشت گردوں کے خلاف
سربکف ہیں۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنے ملک کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد
ڈہراج نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری شناخت، میری پہچان ہے
اور دنیا بھر میں میرا مان بھی۔ اس لفظ ”پاکستانی“ سے میرا وہ رشتہ ہے جو کسی تتلی
کا پروں سے، پنچھی کا اڑان سے، اور کسی شخص کا اپنے نام سے ہوتا ہے۔ یہ شناخت میرے
آباءنے بڑی تگ و دو، جدوجہد، اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے اور اب اسے برقرار رکھنا
اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے آباءکے چھوڑے ہوئے ترکے اور
وراثت پر اپنا حق سمجھنا۔ اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ہے جو اس مملکتِ
خداداد میں پیدا ہوا ہے، اور اپنے ساتھ یہ پہچان رکھتا ہے۔ شعراءحضرات نے اپنا کلام
سنایا ان میں ڈاکٹر ذاکر حسین عادل ایڈوکیٹ, ڈاکٹر زبیر فاروق العرشی، ڈاکٹر نثار احمد
نثار، حامد علی سید، شجاع الزماں خان، ظفر بلوچ، تاج علی رعنا، الحاج نجمی، افضل ہزاروی،
افسر علی افسر، اختر ہاشمی، تنویر سخن، عروج واسطی، تنویر سخن، یحییٰ سرور چوہان، ذوالفقار
حیدر پرواز، محمد طلحہٰ خان، شامل ہیں۔ اس موقع پر مقررین نے پیش کیا۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر
اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔
سیمینار اور مشاعرے کی نظامت کے فرائض تنویر سخن نے انجام دیے۔
کوئی تبصرے نہیں