گوجرانوالہ، یومِ آزادی کی پُروقار تقریب کا انعقاد
رپورٹ۔ صدام ساگر
ہر سال کی طرح اس بار بھی
دنیا بھر میں پاکستان کا 77 واں یومِ آزادی ملی جوش و جذبے کے ساتھ منایا گیا۔ اپنی
آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ یہ آزادی ہمارے بزرگوں اور اکابرین نے
اپنی جانیں قربان کر کے حاصل کی، آزادی کا یہ دن ہمیں آپس کے اختلافات دور کرکے پاکستان
کی سلامتی، استحکام کے لیے متحد ہو کر آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتا ہے، پاکستان ہے تو ہم
ہیں، آزادی کی اہمیت اُن قوموں اور لوگوں سے پوچھنی چاہیے جو اس سے محروم ہیں، زندہ
قومیں آزادی کی قدر جانتی ہیں۔اس روایت کو جاری رکھتے ہوئے وطنِ عزیز کے نونہالوں کو
قوم کی تاریخ اور وطن کے لیے جدوجہد اور ان کی ذمے داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے مستقبل
کے معمارانِ وطن تیار کیے جاتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پاکستان کی آزادی کا
جشن منانے کی روایت پروفیسر اکرم رضا کے اس شعر کے مصداق کچھ ایسی ہے۔
تیرے دامانِ محبت سے ہمیں کیا نہ ملا |
ہم نہ دے پائے تجھے خدمت کا جو معیار ہے |
چودہ اگست کے روز پاکستان
میں سرکاری، نیم سرکاری، نجی، سیاسی و سماجی سطح پر پرچم کشائی کی تقریبات ہوئی۔ ہر
شہر کی طرح گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ اور تنظیم بقائے ثقافت پاکستان کے اشتراک سے
”شیراں والا باغ“ کے خوبصورت پارک میں جشنِ آزادی کی ایک عالی شان اور پُروقار تقریب
کا انعقاد کیا گیا۔ تلاوتِ قرآن پاک کی سعادت قاری طالب حسین یمنی کے حصے میں آئی جبکہ
پاکستان کے نامور ثنا خوان محمود الحسن صدیقی نے اپنی خوبصورت آواز سے بارگاہ رسالت
صلی اللہ علیہ وسلم میں گل ہائے عقیدت کے پھول نچھاور کیے۔ اس پروگرام کے پہلے مرحلے
میں ”مٹی کی خوشبو“ کے عنوان سے ایک اصلاحی اسٹیج ڈرامہ پیش کیا گیا جس کو ڈاکٹر اعجاز
بیگ نے تحریرکیا اور ہدایات زاہد علی نے دی۔
اس ڈرامے کو پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ جو بیرونی ممالک میں جاکر لوگ اپنی مٹی کی خوشبو کو بھول جاتے ہیں ایسے لوگوں کے دلوں میں اپنی مٹی کی قدر و قیمت اور اس سے محبت کرنے کا جذبہ بیدار ہو سکے۔ اس تقریب کے دوسرے مرحلے میں نامور گلوکاروں نے ملی نغمے گا کر ناظرین کے جذبہ حب الوطنی کو جلا بخشی جن میں یاسر خان، محمد اصغر پہلوان رحمانی، فیصل بٹ اور شیراز اسلم نے اپنی آواز سے محفل کو چار چاند لگا دیے۔ اس کے بعد گوجرانوالہ کے قوال گھرانے کی شان اعجاز صفدر علی المعروف لکی علی چاند نے اپنے ہمنواﺅں کے ساتھ نہایت عمدہ پرفارمنس سے حاضرین کو جھومنے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے ابوالفن ادریس نازکو اپنا اُستاد تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ”آج ان کی دُعاﺅں، شفقتوں اور محبتوں کی بدولت میں اس مقام پر ہوں کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ میرے فن سے محبت اور میری آواز کو پسند کرتے ہیں۔“ ایسے میں نازصاحب کے مجھے دو اشعار یاد آ رہے ہیں کہ:
سینکڑوں لوگ ہیں جو جاتے ہیں اک شان کے ساتھ |
یار کی بزم میں اک تو ہی نرالا نہ گیا |
قدرت نے ادریس ناز کو خوش خوابی و خوش فکری کی دولت نہایت فیاضی سے بخشی ہے، حیات و کائنات کے مسائل و مراحل پر ان کی گہری نظر ہے،گوجرانوالہ کی ادبی، ثقافتی، صحافتی اور تعلیمی فضا کو وہ نہ صرف اپنے فن سے خوشگوار بناتے ہیں بلکہ اُس میں اپنی سوچ کے نئے رنگ بھرتے ہوئے ایسے پھول کھلاتے ہیں جن کی خوشبو تا دیر گلستانِ سخن کو مہکاتی رہیں۔ انہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتی سطح پر سرکاری اعزازات سے نوازنا چاہیے۔ بقول شاعر:
سخن کے باغ میں چرچا ہُوا میرا ہر اک جانب |
کہ خوشبو کی طرح بانٹا گیا مجھ کو بہاروں میں |
جشنِ آزادی کی اس تقریب کے
مہمانِ خصوصی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل شبیر حسین بٹ تھے، جنہوں نے اپنے خیالات کا اظہار
کرتے ہوئے کہا کہ ” ارضِ وطن پاکستان اللہ کی خاص عطا ہے یہ قائداعظمؒ اور ان کے رفقاءکی
انتھک محنتوں اور قوم کی لازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے نو جوان نسل کو اس بے مثال جدوجہد
اور لازوال قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔“ اس کے علاوہ تنظیم بقائے ثقافت کے
چیئرمین چوہدری اشرف مجید اور اس تنظیم کے صدر محمد اسرائیل و دیگر مقررین نے پنے خیالات
کا اظہار کیا۔ وقت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے محفلِ مشاعرہ کو ایک گھنٹے تک محدود کر
دیا گیا، یہ مشاعرہ فلسفہ آزادی اور حب الوطنی کو فروغ دینے کے لیے رکھا گیا جس کی
صدارت گوجرانوالہ کے ادبی اکھاڑے کے پہلوان، اُستاد شاعر جان کاشمیری نے کی دیگر شعرا
میں شبیر حسین بٹ، پروفیسر نائلہ بٹ، پروفیسر ثروت سہیل، فرحانہ عنبر، راحت ثمر، عارف
شاد، قیصر محمود گورائیہ اور مجھ خاکسار کو اپنا اپنا کلام پیش کرنے کا موقع فراہم
ہُوا۔
اس یادگار پروگرام کی نظامت
کے فرائض ادریس ناز نے ادا کیے۔ اس کے بعد رات کے بارہ بجے آل انڈیا ریڈیو اور پاکستان
ریڈیو سے قیام پاکستان کا اعلان نشر کیا گیا تو پنڈال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے
گونج اُٹھا، اس موقع پر جشن آزادی کا کیک بھی کاٹا گیا اور پاکستان کی سلامتی، سربلندی
اور استحکام کے لیے خصوصی دعا اور قومی ترانہ بھی پیش کیا گیا اور پاکستان کے نامور
ڈھول نواز جیدار جانی نے اپنے زبردست فن کا مظاہرہ پیش کیا۔
اس تقریب کی کامیابی پر گوجرانوالہ
یونین آف جرنلسٹس ملک توصیف اقبال کاشمیری نے تمام مہمانوں اور حاضرین کا شکریہ ادا
کیا۔ ملک توصیف ایک نڈر اور صاف گو صحافی ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ اب یہاں صرف فصلِ
گل کی کاشت ہو، اب یہاں خاک و خون کی بجائے سر سبز و شاداب اور ٹھنڈی فضائیں چلیں،
اب یہاں رہنے والے کسی بھی شہری کے لیے زندگی عذاب نہ ہو بلکہ باعثِ رحمت ہو۔ احمد
ندیم قاسمی کے ان دُعائیہ اشعار کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اُترے |
وہ فصلِ گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو |
یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے برسوں |
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو |
کوئی تبصرے نہیں