سندھ لیبر کوڈ، مزدور کی شناخت پر حملہ

Nasir Mansoor

پاکستان کا مزدور طبقہ آئی ایل او اور حکومت سندھ کی جانب سے پیش کردہ سندھ لیبر کوڈ کا کیوں مخالف ہے، اسے جاننا انتہائی ضروری ہے۔ محنت کشوں کا بنیادی اعتراض ہے کہ لیبر قوانین کی تشکیل کے لیے ملکی و بین الاقوامی طور پر طے شدہ سہ فریقی (ورکرز، مالکان اور حکومت) مشاورتی کے عمل سے گزرے بنا، اس مسودے کو پیش کیا گیا ہے۔ موجودہ لیبر قوانین میں اس وسیع پیمانے پر بنیادی تبدیلیوں کے لیے ضروری ہے کہ آئی ایل او کے کنونشن 144، 1976 کے تحت سہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد ہو اور اس کانفرنس کی متفقہ سفارشات کی روشنی میں لیبر پالیسی کا اعلان کیا جائے اور پھر اس لیبر پالیسی کی روشنی میں لیبر قوانین کی تشکیل اور قانون سازی کی جائے۔ نہ تو وفاقی یا صوبائی سطح پر کسی سہ فریقی لیبر کانفرنس کا انعقاد کیا اور نہ ہی کوئی وفاقی یا صوبائی لیبر پالیسی کا اعلان ہوا۔

اس حقیقت کو جاننے کے باوجود تمام ضروری مشاورتی مراحل کو روندتے ہوئے سندھ لیبر کوڈ کا مسودہ تیار کرنا آئی ایل او اور حکومت کے غیر جمہوری اور غیر شفاف رویے کی نشان دہی کرتا ہے، جس سے محسوس ہوتا ہے کہ کوڈ کی آڑ میں کوئی ایسا مزدور دشمن خطرناک کام انجام دینا مقصود ہے جس کا حصول سہ فریقی مشاورتی عمل سے ناممکن تھا۔

مزدوروں کا اصولی موقف رہا ہے کہ مروجہ لیبر قوانین کو مزید بہتر، قابل عمل، سہل اور مزدور دوست بنایا جانا وقت کی اہم ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے آئی ایل او کی زیر نگرانی تیار ہونے والا نام نہاد ”لیبر کوڈ“ مزدور طبقے کے حالات کار اور اوقات کار میں بہتری لانے کی بجائے وہ بنیادی حقوق بھی سلب کرنے کا عندیہ دے رہا ہے جو اس نے ایک صدی پر محیط طویل جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیے ہیں۔

مثال کے طور موجودہ لیبر قوانین میں درج مزدوروں کے مستقل ملازمت کے حق اور ”مستقل نوعیت کے کام کے لیے مستقل ملازمت“ کے تسلیم شدہ قانونی حق کو ہی یکسر ختم کرتا ہے۔ یہ کوڈ مزدوروں کی زندگیوں میں زہر گھولنے والے غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کی مختلف شکلوں بشمول تھرڈ پارٹی کنٹریکچول سسٹم کو قانون کا درجہ دے کر کار گاہوں میں اجرتی غلامی کے نظام کو مسلط کرتا ہے جس کا واحد مقصد اصل آجر کو ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کا قانونی جواز فراہم کرنا ہے۔

اس لیبر کوڈ میں ورکرز کی تعریف کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ، وسیع (گھر مزدور، ڈومیسٹک پلیٹ فارم ورکرز، ایگری کلچر، فشریز) اور بہتر بنانے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ اور کئی کیٹگریز میں تقسیم کرتے ہوئے انہیں اصل آجر کا ملازم ہونے کی بجائے آکوپائیر، ٹھیکہ دار اور پیٹی ٹھیکہ دار، تھرڈ پارٹی کنٹریکٹر اور ریکروٹنگ ایجنسیوں کا ملازم بنا کر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتا ہے، جس کا واحد مقصد اصل مالکان کو ان کی قانونی ذمے داریوں سے استثنیٰ دیتے ہوئے فارمل سیکٹر کو انفارمل بنانا ہے، جس کا خطرناک نتیجہ یہ ہوگا کہ کسی بھی صنعتی تنازع کی صورت مزدور اصل آجر کے خلاف کسی بھی قسم کی قانونی چارہ جوئی، سوشل سیکیورٹی، پینشن، یونین سازی، بونس، اوقات کار اور گریجویٹی جیسے بنیادی حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔

اس کوڈ میں پیشگی (ایڈوانس) کے غیر انسانی نظام کو مزید تقویت دینے کی تجویز دی گئی ہے جس کے ذریعے مالکان ورکرز کی خرید و فروخت کر سکیں گے یوں بھٹوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور اور ہاری خان دانوں کی زندگیاں جانوروں سے بدتر ہو جائیں گی۔ پیشگی کا نظام غلامی ہی کی ایک جدید شکل ہے جو یو این او اور آئی ایل او کے کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔

اس کوڈ کی بدترین بات یہ ہے اس میں کئی ایک سرکاری اداروں میں ایک سے لے کر پندرہ گریڈ تک کے ملازمین کو موجودہ لیبر قوانین کے تحت حاصل یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے حق کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو آئی ایل او کے بنیادی کنونشن 87 اور 98 کی خلاف ورزی ہے۔

حق ہڑتال، مزدوروں کا بنیادی حق ہے جسے مروجہ لیبر قوانین میں کافی حد تک بے اثر بنا دیا گیا ہے جس کے خلاف مزدور طبقہ مسلسل آواز اٹھا رہا ہے، لیکن حق ہڑتال سے متعلق مزدور کے اعتراضات کو دور کرنے کی بجائے مجوزہ لیبر کوڈ میں مزید قدغن لگا کر حق ہڑتال کو عملاً غیر موثر اور تقریبا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

لیبر قوانین میں موجود صنعتی تنازعات کو حل کرنے کے طریقہ کار کو مزدور طبقے کی پہنچ میں لانے، آسان بنانے اور بروقت فیصلہ کرنے کے راستے تلاشنے کی بجائے کوڈ میں ایسے نئے متوازی نظام کو وضع کیا گیا ہے جس میں بیوروکریسی تعددی اعتبار سے دیگر فریقین (آجر اور اجیر) پر حاوی ہوگئی ہے۔ یہ اس قانون کی بھی کھلی خلاف جس کے تحت لیبر سے متعلق سہ فریقی کمیٹیوں میں ورکرز اور مالکان کی نمائندگی چالیس چالیس فی صد جب کہ حکومتی نمائندگی بیس فی صد ہوگی۔ سندھ لیبر کوڈ میں بیوروکریسی کے اختیارات کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے لامحدود اختیارات کا حامل بنا دیا ہے۔ لیبر کوڈ کی آڑ میں بیوروکریسی نے خود کو مزید مضبوط کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں