دنیا بھر میں شاہ لطیف بھٹائی سندھ کی شناخت ہیں

Shah Latif Bhitai Urs Mushaira, Radio Pakistan, Acadmey Adbiyat Pakistan, Pakistan Television Network

کراچی (نمایندہ ٹیلنٹ) اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیراہتمام انسانیت و محبت کے آفاقی شاعر حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی281 عرس کے موقعے پر سیمینار و مشاعرہ کاانعقادکیا گیا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر نواز علی شوق نے کی۔ مہمانان خصوصی ڈاکٹر فاطمہ حسن، ڈاکٹرمحمد علی مانجھی تھے۔ اظہار خیال ڈاکٹر عابد مظہر، پروفیسر ڈاکٹر اظہر شاہ، ڈاکٹر مخمور بخاری، شوکت اجن، اے بی لاشاری، پروفیسر حسام میرانی، ڈاکٹر سابھیاں سانگی، ضیاءابڑو نے کیا۔

صدارتی خطاب میں ڈاکٹر نواز علی شوق نے کہا کہ ”شاہ جو رسالو“ کی روحانی داستانیں ہوں یا مختلف سُر مرکزی تصور ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ راست بازی، طمع سے گریز، برداشت اور حسن عمل یہی آپ کا فلسفہ ہے اور یہیں فکرو پیغام، انسانی عظمت و اخوت پر مبنی سوسائٹی کا قیام شاہ لطیف کے افکار کی روشنی میں باآسانی ممکن ہے اور یہ آج کے عہد کی ضرورت بھی ہے۔ سندھ ہو یا پاکستان بلکہ پوری دنیا اختلافات کی خلیج پاٹنے، دوستی کے رشتے استوارکرنے نفرتوں کے خاتمے کے لیے شاہ کے کلام کو اساس بنایا جائے تو دنیا آج بھی اتنی اچھی بن سکتی ہے جتنی کہ اچھے لوگوں نے سوچی ہوگی چونکہ لطیف سائیں دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں، اس لیے ان کا پیغام بھی ذہنوںپر راج کرتا ہے اور حرص و ہوس میں ڈوبی دنیا کے لیے بھٹائی کا فلسفہ و فکر گھٹے ہوئے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ شاہ لطیف کے کلام کی مقبولیت کا بنیادی سبب اس کی غنائیت اور سچائی ہے وہ عوامی طرز کے انسان تھے اور جانتے تھے سندھ عوام کو جو صوفیانہ مزاج رکھتے ہیں کس طرح متوجہ کیا جاسکتا ہے، یہی سبب ہے کہ آج ڈھائی سو برس بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی وہ بدستور دلوں پر راج کر رہے ہیں۔

مہمان خصوصی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کہا کہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا عرس ہرسال بھٹ شاہ میں منایا جاتاہے، عرس کی تقاریب میں صوبے کے قریے قریے سے لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں یہ تقریبات سندھ کی ثقافت کا جزو ہیں۔ اولیائے کرام سے نیاز مندی صوبے کے باسیوں کے خمیر میں رچی بسی ہے، یہی سبب ہے کہ ایسے میلے اور تقریبات قومی اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ شاہ لطیف کی شاعری، تعلیمات اور افکار ہر عہد میں سندھ کے لوگوں کے لیے روشنی کا مینار رہے ہیں۔ سندھ سے شاہ لطیف کی محبت، ان کے اشعار سے نمایاں ہے لیکن وہ محض علاقائی بنیاد پر نہیں سوچتے وہ آفاقیت کی بات کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ رب کریم سندھ پر اپنی رحمتیں نازل فرما لیکن ساتھ ہی ان کے لبوں سے یہ کلمات بھی ادا ہوتے ہیں کہ ”دوست احباب اورتمام دنیا کو بھی شاد آباد رکھ“ یعنی شاہ لطیف نے خود کو صرف سندھ تک محدود نہیں رکھا وہ عالمگیر محبت کے قائل تھے۔ ڈاکٹر محمدعلی مانجھی نے کہا کہ شاہ لطیف بھٹائی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ دنیا بھر میں شاہ سندھ کی شناخت ہیں۔ آپ نے صوبے کے صحراؤں، ندیوں، دیہات، رومانی داستانوں اوردیگر نشانیوں کوموضوع بنایا اور جو کچھ تحریر کیا وہ آج ہر شخص کی زباں پر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر اظہر شاہ نے کہا کہ آپ نے سوہنی کی زبان سے محبت، ماروی کے الفاظ میں وطن پرستی کا درس دیا تو کسی کردار کے ذریعے جرات مندی اور کسی پیکر کے ذریعے انسان دوستی کا درس دیا۔ شاہ لطیف نے جس طرز کو عام کیا وہ آج علماءہوں یا قوم پرست، شاعر ہوں یا ادیب، دانشور ہوں یا راسخ العقیدہ سب کے لیے مشعل راہ ہے۔ ڈاکٹر مخمور بخاری نے کہا کہ آپ نے اپنے کلام میں موجود سروں اور داستانوں کے ذریعے انسان دوستی کی تعلیم دی۔ آپ سندھی زبان کے ہی نہیں دنیا کی دیگر زبانوں کے قارئین کو بھی متوجہ کرتے ہیں۔ محبت، پیار، بھائی چارہ اور نسل آدم کو انسان دوستی جو درس دیا ہے وہ آپ کے کلام کی آفاقیت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ ڈاکٹر عابد مظہر نے کہا کہ ” شاہ جو رسالو“ کی روحانی داستانیں ہوں یا مختلف سُر، مرکزی تصور ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ راست بازی، طمع سے گریز، برداشت اور حسن عمل یہی آپ کا فلسفہ ہے اور یہیں فکرو پیغام، انسانی عظمت و اخوت پر مبنی سوسائٹی کا قیام شاہ لطیف کے افکار کی روشنی میں باآسانی ممکن ہے اور یہ آج کے عہد کی ضرورت بھی ہے۔ شوکت اجن نے کہا کہ سندھ ہو یا پاکستان بلکہ پوری دنیا اختلافات کی خلیج پاٹنے، دوستی کے رشتے استوار کرنے نفرتوں کے خاتمے کے لیے شاہ کے کلام کو اساس بنایا جائے تو دنیا آج بھی اتنی اچھی بن سکتی ہے جتنی کہ اچھے لوگوں نے سوچی ہوگی چونکہ لطیف سائیں دلوں پر حکمرانی کرتے ہیں، اس لیے ان کا پیغام بھی ذہنوںپر راج کرتا ہے اور حرص و ہوس میں ڈوبی دنیا کیلیے بھٹائی کا فلسفہ و فکر گھٹے ہوئے ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے پروگرامزانچارج ڈاکٹر شیر مہرانی نے کہا کہ شاہ لطیف کے کلام کی مقبولیت کا بنیادی سبب اس کی غنائیت اور سچائی ہے وہ عوامی طرز کے انسان تھے اور جانتے تھے سندھ عوام کو جو صوفیانہ مزاج رکھتے ہیں کس طرح متوجہ کیا جاسکتا ہے، یہی سبب ہے کہ آج ڈھائی سو برس بعد بھی ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی وہ بدستور دلوں پر راج کررہے ہیں۔اس موقع پر شعرائے کرام نے حضرت شاہ لطیف بھٹائی کو خراج عقیدت پیش کیا اور آخر میں مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت اختر عبدارلزاق، مہمانان خاص غوث پیرزادہ، پروفیسر مشتاق مہر، اقبال سہوانی، پروفیسر سابھیاں سانگی آتش پنھیار تھے۔ شعراءمیں نصیر سومرو، سعد الدین سعد، عرفان علی عابدی، نصرت سرفراز، حامد علی سید، شیخ اسلم آزاد، اے بی لاشاری، شجاع الزماں خان، محمد رفیق مغل، صفدر علی خان انشائ، صدیق راز ایڈوکیٹ، امتیاز دانش، ارحم ملک، قمر جہاں قمر، غلام حیدر مہرباقرعباس فائز، تنویر سخن، افضال ہزاروی، مسرور پیرزادہ، دلشاد خیال ایڈوکیٹ، افسر علی افسر، مظہر اظہار مہدی، عارف شیخ عارف، سید اوج ترمذی، اپنا کلام سُنایا۔ ریزیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال احمد ڈہراج نے آخر میں اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے جانب سے شکریہ ادا کیا۔ نظامت کے فرائض پرہ سید، سعدیہ اور تنویر سخن نے سر انجام دیے۔

کوئی تبصرے نہیں