آج الیکٹرانک میڈیا بہت طاقتور ہے

Dr. Mansoor Noorani

جب ساری دنیا میں الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے عوام کی تیز تر رسائی خبر تک ممکن ہوئی، تو بے شمار نئے پرائیویٹ چینلز متعارف ہوئے، جن سے بہت سارا سچ کھل کر سامنے آنے لگا۔ وہ سچ جو سرکاری میڈیا عوام تک پہنچنے نہیں دیتا تھا، وہ عوام کے سامنے آنا شروع ہوگیا۔

یہ چینلز آج اتنے طاقتور ہوچکے ہیں کہ جب چاہیں کسی بھی حکومت کے خلاف جھوٹی سچی خبریں چلا کر اُسے مشکلات سے دوچار کردیں۔ حکومتوں کے جانب سے ضابطہ اخلاق پر عمل کروانے کی تمام تر کوششیں اُن کے آگے ناکام و نامراد ہوچکی ہیں۔ یہ چینلوں کا دور اس قدر کامیاب ہوچکا ہے کہ پرنٹ میڈیا اس کے آگے دم توڑنے لگا ہے، ویسے بھی ہمارے لوگوں میں پڑھنے پڑھانے کا شوق اب ختم ہوچکا ہے۔ اُن کے پاس اخبار یا مضمون پڑھنے کے لیے شاید وقت ہی نہیں بچا ہے وہ آج باآسانی ٹی وی کھول کر یا اپنے موبائل فون پر اپنے مطلب کی خبریں سن لیتے ہیں اور خود ہی سے نتیجہ اخذ کر کے اپنی رائے بنا لیتے ہیں یا پھر وہ اپنے من پسند سیاسی رہنما کی تقریر یا اپنے ہم خیال تبصرہ نگار کی باتیں سن کر ایک مخصوص سیاسی نظریہ ترتیب دے دیتے ہیں اور پھر اسی پر قائم رہ کر سوشل میڈیا پر مخالفوں کی توہین و تذلیل کرنے لگتے ہیں۔

من حیث القوم پچھلے کچھ سالوں سے ہمارے اندر برداشت کا مادہ تقریبا ناپید ہوچکا ہے اور ہم ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ایک دوسرے کو نہ صرف گالیاں دینے بلکہ مارنے پیٹنے پر اتر آتے ہیں۔ قوم کے اندر جو اخلاقی بگاڑ یا زوال پرورش پا چکا ہے اُس کا علاج اب شاید ہی ممکن ہو۔ سیاست ہمارے اندر اس قدر سرائیت کر چکی ہے کہ ہم اس کی خاطر اپنے بھائی بہنوں کو بھی بخشنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کچھ لوگ اسے سیاسی شعور کا نام دیتے ہیں، جبکہ ہمارے خیال میں یہ سیاسی شعور نہیں بلکہ شعوری انحطاط ہے جس میں بد اخلاقی اور بدتمیزی کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے۔ اس میں جلتی پر تیل کا کام ہمارے وہ اینکرز حضرات کرتے ہیں جو اپنے پروگرام میں کسی سیاست دان کو اس کے مخالف کا بیان سنا کر اشتعال دلاتے ہیں اور پھر اُن کے منہ سے پھول برستے دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو پروگرام میں آئے ہوئے مہمانوں کو گتھم گتھا ہوتا دیکھ کر اپنی ریٹنگ بھی بڑھاتے ہیں اور پھر کام ڈاؤن، کام ڈاؤن کا شور بھی مچاتے ہیں۔

ہمارا الیکٹرانک میڈیا کسی بھی ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کو تیار ہیں ہے، وہ مادر پدر آزاد رہ کر اپنی مرضی سے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔ اُسے صرف گرما گرم خبروں کی طلب رہتی ہے جو چاہے جھوٹی ہوں یا سچی جسے سب سے پہلے سنا کر وہ دیگر چینلوں سے سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ملک میں کسی مسئلہ کو لیکر اضطراب اور بے چینی بھی پیدا کردیتا ہے اور کسی چھوٹی سے بات کا بتنگڑ بنا دیتا ہے۔ ابھی حالیہ دنوں میں اس میڈیا نے گندم کے مسئلہ پر ایک طوفان مچایا ہوا تھا، اتنا شور مچایا کہ حکومت کے گندم نہ خریدنے سے ہمارا کسان بھوک سے مرجائے گا۔ آئے دن روزانہ اس بات کو لے کر ٹاک شوز منعقد کیے جارہے تھے اور کسان کی فیڈریشن کے احباب کو بلاکر لانگ مارچ اور احتجاجی مظاہروں کے اعلانات بھی کروائے جارہے تھے، لیکن پھر کیا ہوا، اچانک خاموشی چھاگئی۔ نہ ایسے احتجاجی مظاہرے ہوئے کہ حکومت گھٹنے ٹیک دیتی اور نہ کسی کسان کا معاشی قتل ہوا۔ وہ گندم بالآخر خرید لی گئی اور مسئلہ ختم ہوگیا۔

پھر انٹرنیٹ کے سلو ہوجانے کی خبر کو اس قدر پھیلایا گیا کہ ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ حکومت کے فائر وال کی تنصیب کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ایسا تاثر پیدا کیا گیا کہ فائر وال کا مقصد کسی دوسرے فریق کی جاسوسی کرنا ہے، آج وہ شور بھی تھم گیا۔ اب کسی اور مسئلہ کا انتظار ہے، جیسے ہی وہ ہاتھ لگ گیا پھر دیکھیے میڈیا کیسے شور مچاتا ہے۔

ملک میں روزانہ کتنے مالی اسکینڈل سامنے آتے ہیں، ہمارا الیکٹرانک میڈیا اپنی پسند اور ناپسند کے مطابق اور اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن میں سے کسی خبر کو اچھالتا ہے اور کسی پر اپنی زبان بند کردیتا ہے۔ ملک کے مشہور پراپرٹی ٹائیکون کے بارے میں بھی ہمارے میڈیا کا یہی رویہ ہے۔ کیسے کیسے پاکباز اور بظاہر نیک سیرت صحافیوں کے نام طشت ازبام ہوئے جنہوں نے اس پراپرٹی ٹائیکون سے مال غنیمت سمیٹا یا بٹورا، مگر کیا مجال کے اُن کے خلاف کسی نے ہرزہ سرائی بھی کی ہو۔ وہ نیک سیرت صحافی حضرات آج بھی ٹی وی پر بیٹھ کر قوم کو درس اخلاق پڑھا رہے ہوتے ہیں لیکن خود اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے۔ کم از کم توبہ استغفار ہی کر لیتے تو شاید کچھ کفارہ ادا ہو جاتا۔

مشکل یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی طور پر انتہائی زوال اور انحطاط پذیری سے گزر رہے ہیں۔ سیاسی تعلق اور وابستگی نے اچھے اور برے کی تمیز ہی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ جھوٹ، بے ایمانی اور ضمیر فروشی ہماری شناخت اور قومی امتیاز بن چکی ہے۔ احساس زیاں سے بے نیاز ہو کر ہم اجتماعی خود سوزی اور خود کشی کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ اصلاح احوال کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دے رہی۔ ذاتی مفادات کی سوچ اور سیاسی و مذہبی تفریق نے ہمیں ایک قوم بننے ہی نہیں دیا۔ لگتا ہے ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاءکے سفر کا جیسے آغاز ہی نہیں کیا اور زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند بس اپنے ذاتی مفادات اور نظریات سے نہ صرف جڑے ہوئے ہیں بلکہ چمٹے ہوئے ہیں اور شاید ہم اس سوچ کو بدلنا بھی نہیں چاہتے۔

کوئی تبصرے نہیں