محمد عالم نقوی، صحافت کا ایک عہد تمام ہوا
تحریر۔ ندیم صدیقی
ممتاز صحافی و دانشور سید محمد عالِم نقوی طویل علالت کے بعد لوک نائیک جے پرکاش نرائن اسپتال دہلی میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے لکھنو کے سینٹ زیوئیرس اور شیعہ کالج میں تعلیم حاصل کی اور پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے، جہاں سے اُنہوں نے گریجویشن ہی نہیں کیا بلکہ پوسٹ گریجویشن بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہی سے کیا، سائیکلوجی اُن کا خاص مضمون تھا، علی گڑھ کی مشہورِ عالَم مسلم یونیورسٹی ہی سے اُنھیں گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
اپنے دور کے ممتاز اور سینئر صحافی جمیل مہدی کی معیت میں انہوں نے لکھنو سے شائع ہونے والے جریدے ”عزائم“ سے اپنی صحافتی زندگی شروع کی، (واضح رہے کہ کسی زمانے میں جمیل مہدی ممبئی میں بھی اخباری دُنیا کا ایک ممتاز نام تھا۔) سید محمد عالِم نقوی نہایت احترام اور ادب سے جمیل مہدی کا ذکر کیا کرتے تھے، کہتے تھے کہ صحافت کے بہت سے گُر مَیں نے اُنہی سے سیکھے، اُن کی نم آنکھوں کے ساتھ یہ جملہ ہمیں آج بھی یاد ہے کہ ”وہ (جمیل مہدی) اِس میدان میں میرے اولین استاد تھے۔“
عَالم نقوی کے ساتھ ہم نے
کوئی دو دَہے سے زائد مدت کام کیا، ان کے تعلق سے یہ بات اکثر ذہن میں آتی تھی کہ اِنھیں
تو اُستاد ہونا چا ہیے تھا، تو باتوں میں باتوں میں پتہ چلا کہ نفسیات کا یہ طالب علم
کلکتے کے اردو جونیئر ہائی اسکول، کا صدر مدرس رہ چکا ہے۔
عالم نقوی ایسوسی ایشن آف
انڈین انجینئرنگ انڈسٹریز (دہلی) میں بطور ایگزیکٹیو کام کرچکے ہیں، اپنے دَور کے مشہور
سرکاری جریدے ”روزگار سماچار“ میں نہ صرف پروف ریڈنگ کی بلکہ ترجمہ نگاری بھی کی۔
عالِم نقوی اپنے دَور کے
مشہور ترین روزنامہ ” قومی آواز“ (دہلی) سے وابستہ ہوئے اور اگر ہمارا حافظہ خطا نہیں
ہوتا تو 1987- 1988 میں روزنامہ انقلاب (ممبئی) میں اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر اُن کا
تقرر ہوا مگر وہ کام نیوز ایڈیٹنگ کا کرتے تھے اور اس نازک کام میں مرحوم مہارت رکھتے
تھے، ہر ہفتے ”انقلاب“ کے سنڈے میگزین میں اُن کا مضمون بہ اہتمام شائع ہوتا تھا، جس
کا موضوع اکثر ملت اور حالیہ مسائل ہی ہوتے تھے جس میں اُن کی درد مندی صاف محسوس ہوتی
تھی، کچھ لوگ ان کے جذباتی ہونے سے شاکی بھی رہتے تھے مگر اُن کا قلم ہمیشہ وہی لکھتا
رہا جو اُن کے دل میں ہوتا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اُن کے
والد انھیں ایک مجتہد دیکھنا چاہتے تھے مگر عالِم نقوی نے صحافت میں اجتہاد کیا اور
نیک نام ہوئے، ان کے مزاج میں دِینی رجحان کُوٹ کُوٹ کر جیسے بھرا ہوا تھا وہ اپنے
اداریے اور مضامین میں اکثر و بیشتر قرآن سے استنباط کیا کرتے تھے کئی اخباری ساتھی
اُن کے اس عمل پر ’نگاہ‘ رکھتے تھے۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ہم لازم سمجھتے ہیں کہ وہ صحافتی برادری میں لکھاڑ صحافی کہے جاتے تھے مگر کم لوگ یہ جانتے ہونگے کہ وہ لکھنے سے زیادہ پڑھتے تھے اور اُن کے مطالعے کے موضوعات صرف سیاسیات نہیں بلکہ دین و ادب بھی تھے، اچھے شعر پر جس طرح ان کے تاثرات چہرے سے عیاں ہوتے تھے ویسی کیفیت ہم نے شعرا کے ہاں بھی کم کم دیکھی ہے، روزنامہ انقلاب میں ہمارے رفیق کار شاعر ارتضیٰ نشاط کے ان اشعار پر:
کفر سے ایمان کی جانب سفر کیسا لگا |
کیا ہوا، قالین سے کیسے دری تک آ گئے؟ |
مت مقالے ایسے لوگوں پر لکھو جو بد نصیب |
فن کی راہوں میں چلے سوداگری تک آگئے |
ہم نے انھیں تادیر اُف اُف
کرتے نم دیدہ دیکھا ہے۔ شعر سے اس طرح متاثر ہونے والے ہمارے ہاں آج عَنقا ہیں۔
عالِم نقوی کی ممبئی میں
سب سے پہلی کتاب گجرات فسادات کے بعد ”لہو چراغ“ کے نام سے منظر عام پر آئی اور اِس
وقت اُن کی دو کتابیں اور ہمارے حافظے میں ہیں جس میں ایک ”اُمید“ اور دوسری ”عذابِ
دانش“ ہے۔
روزنامہ”انقلاب“ کی ملازمت
کے لیے لوگ متمنی اورکوشاں رہتے ہیں مگر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے ”انقلاب“
کے اسسٹنٹ ایڈیٹر جیسے عہدے سے از خود استعفیٰ دیدیا اور پھر کچھ مدت بعد وہ برادرم
سعید حمید کی ایما پر لکھنو سے روزنامہ اُردو ٹائمز (ممبئی) کے لیے بطور ایڈیٹر مدعو
کیے گئے اور یہاں بھی انہوں نے خاصی طویل مدت کام کیا ،پھر اُردو ٹائمز سے نکل کر وہ
لکھنو کے روزنامہ’اودھ نامہ‘ کے گروپ ایڈیٹر کے طور پر منتخب ہوئے۔
عالِم نقوی کی صحافت کا دورانیہ
دو چار دن کی بات نہیں، یہ ایک طویل زمانہ ہے۔ انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام گزارنے
کے لیے علی گڑھ کو منتخب کیا اور وہیں مستقل رہائش اختیارکی۔ اِدھر ایک مدت سے وہ علیل
تھے لکھنو، دہلی کے اسپتالوں میں اُن کا ہر طرح کا ٹیسٹ لیا گیا مگر اُن کی صحت روز
بروزگرتی گئی، آخری دنوں میں وہ شدید ذہنی اور جسمانی ضعف کا شکار ہوگئے تھے۔ بالآخرگزشتہ
شب کچھ دیر کے لیے علی گڑھ سے لا کر دہلی کے مذکورہ اسپتال میں انھیں علاج و معالجے
کے لیے داخل کیا گیا جہاں انہوں نے آخری سانس لی۔
لکھنو کے مشہور غفران مآب
امام باڑے کے قبرستان میں اُن کے جسدِ خاکی کو سپردِ لحد کیا گیا۔ اس موقع پر شہر کے
ممتاز افراد و اشخاص نے اُنھیں مٹی دِی۔ عالِم نقوی کے پسماندگان میں دو بیٹے اور دو
بیٹیوں کے ساتھ بیوہ نشاط نقوی شامل ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں