ادب کا روشن ستارہ…… آسناتھ کنول

Asnath Kanwal

تحریر: صدام ساگر

دراصل افسانہ زندگی کے کسی ایک گوشہ کا احاطہ کرتا ہے، اس میں کہانی کا ہونا ضروری ہے جو ایک خاص کردار، ایک خاص واقعہ اور ایک تاثر کی وضاحت کرتی ہو۔ اس کہانی کے پلاٹ کو اس قدر خوبصورتی سے ترتیب دیا گیا ہو جس سے وحدت تاثر نمایاں ہو سکے۔ اردو افسانے کے حوالے سے پروفیسر سراج الاسلام اپنی کتاب ”تبصرے و تذکرے“ میں لکھتے ہیں کہ ”مختصر افسانہ زندگی کے کسی ایک پہلوکی کہانی کا نام ہے اس کی رفتار اور حرکت ایک مرکزی نقطے پر ہوتی ہے۔ افسانہ نگار اسی ایک پہلو کے مختلف گوشوں کو اجاگر کر کے کہانی تیار کرتا ہے، اگر زندگی کے کئی پہلووؤں کی ترجمانی کی جائے تو ایک طرف وحدت تاثر باقی نہیں رہے گی تو دوسری طرف پلاٹ میں فنی خامیاں پیدا ہوجائیں گی۔“ میرے خیال میں فنی طور پر افسانے میں سب سے پہلی چیز موضوع ہوتا ہے اور یہی دیگر اہل دانشوروں کا کہنا ہے کہ ”افسانہ نگارکے لیے ضروری ہے کہ وہ موضوع کے انتخاب میں اس بات کا خیال رکھے کہ وہ انسان کے فطری تقاضوں کو پورا کرتا ہو اس میں نیا پن ہو اور ماحول کی عکاسی کرتا ہو۔

اسی طرح ”پلاٹ“ اس خاکے کو کہتے ہیں جو افسانہ نگار کے پیشِ نظر ابتداءہی سے ہوتا ہے۔ کہانی کی ساری دلچسپیاں پلاٹ کی ترتیب پر مبنی ہوتی ہیں۔ کہانی کا آغاز اس طرح ہونا چاہیے کہ اس میں دلچسپی پیدا کی جائے تاکہ پڑھنے والے مطالعہ کے دوران اکتاہٹ کا شکار نہ ہو۔ اردو کے ان عظیم افسانہ نگاروں میں کرشن چندر، ایندر ناتھ اشک، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، علی سردار جعفری، سجاد ظہیر، خواجہ احمد عباس، سعادت حسن منٹو اور حیات اللہ انصاری وغیرہ شامل ہیں جن کے افسانوں کو آج بھی پڑھ کر قارئین اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ اسی طرح تقسیم ہند کے بعد کے افسانہ نگاروں میں احمد ندیم قاسمی، جیلانی بانو، اشفاق احمد، اے حمید، شوکت صدیقی، انتظار حسین اور انور عظیم وغیرہ شامل ہیں جن کے افسانے قارئین کے دل اپنی طرف موہ لیتے ہیں۔

عہدِ حاضر میں بھی ایسے ہی اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک نام آسناتھ کنول کا بھی ہے۔ جن کے افسانوں میں حقیقت اور صداقت دونوں بیک وقت دکھائی دیتی ہے۔ وہ آنکھوں پر نظرکا چشمہ لگائے دورکی چیزکو بھی قریب کی نظر سے دیکھتے ہوئے ان سے نئے نئے موضوعات تخلیق کرتی ہیں۔ ان کے افسانے جہاں مختصر ہیں، وہیں ان کے افسانے قارئین کو مطالعہ کے دوران بوریت کا شکار نہیں ہونے دیتے۔

 ”حیوانیت“ کے عنوان سے ان کا افسانہ ایک مکمل داستان کا روپ دھارے ہوئے ہیں، جس کا ایک چھوٹا سا عکس دیکھیے کہ ”تجھے کیا ملا میرا گھر اجاڑ کے میری جان لینی تھی لے لے۔ میری بچیوں کو کسی ظلم سے پہلے اٹھا لیا۔ کسی کو بھی پتہ نہ چلا کب وہ بے قابو لہروں کی نذر ہوگیا۔ میڈیا اخبار سب خبریں دے رہے تھے، ایک خاندان اجڑگیا۔ امنگوں آرزوؤں سے بھری زندگیاں کہیں گم ہوگئیں اور انسان نے حیوانیت دکھا دی۔ انسان نیکی کرنے پہ آئے تو فرشتوں کو مات دے دے، شیطان بنے تو انسانیت منہ چھپاتی پھرتی ہے۔

آسناتھ کنول کے اس افسانے کے چھوٹے سے عکس میں ایک گھرانے کی چند بچیوں پر ظلم کی داستان چیخ چیخ کر اپنا انصاف مانگ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف میڈیا حق کی آواز بننے کی بجائے ایک مظلوم گھرانے کو بدنام کر رہا ہے۔ کیا یہ حیوانیت نہیں تو پھرکیا ہے؟ ایسے ہی کہانیاں ہمارے معاشرے میں آئے روز جنم لیتی چلی آ رہی ہے۔ اسی طرح ان کے دیگر افسانوں میں اولڈ ہوم، قبرستان، قسمت اور ”اللہ کی دین“ جیسے افسانے شامل ہیں۔ ان سب افسانوں کو انہوں نے ایک کتاب کی صورت میں اکٹھا کردیا ہے، جو ”نایافت“ کے نام سے اردو افسانوی ادب میں ایک اضافے کا باعث ہیں۔ ان کے سب افسانوں سے کچھ نہ کچھ انتخاب کرنا میرے لیے بہت مشکل ہو گا، لہٰذا ان کا یہ افسانہ ”اللہ کی دین“ جس کی ابتداءوہ اپنے اس شعر سے یوں کرتی ہیں کہ:

درد کی شاخوں پر پھر سے
زخموں کے پھول مہکتے ہیں

درد کی شاخوں پہ یہ کھلے ہوئے پھول جب ہوا کے جھونکے سے آسناتھ کنول کی جھولی میں گرتے ہیں تو وہ ان کو اپنی قلم کی سیاہی سے ان پھولوں کے زخموں پر مرہم اپنے لفظوں کی صورت میں رکھ دیتی ہیں۔ آسناتھ کنول کے ہاں خوابوں کی ایک دنیا آراستہ ہے۔ ماضی کی خوشگوار اور تلخ حقائق ان کا سرمایہ ہیں۔ ان کا تخیل مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔ جو انہیں شاعری اور نثر دونوں میں مضبوط بنا دیتا ہے،کیونکہ وقت ایک کھلی حقیقت ہے۔ ہر لحظہ رواں دواں وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔ تغیر کی علامت ہے۔ شاعر بھی وقت کے سائے میں مسلسل تغیر پزیر زمانے کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتا ہے۔ اسی طرح آسناتھ کنول نے بھی اپنی کھلی آنکھوں سے خوب مشاہدہ کیا اور انہیں اپنے تغیرکی روشنی میں صفحہ قرطاس پر تخلیق کردیا۔ ان کی شاعری اور ان کے افسانوں سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی تجربات، جذبات اور احساسات کو گزرتے وقت کے حوالے سے جانچنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ کائنات، معاشرہ، عشق کوئی بھی اس کے اس عمل سے بچ نہیں پاتا۔

آسناتھ کنول کے اردو افسانوں کا یہ مجموعہ ”نایافت“ ایک نایاب لمحوں کی کہانی ہے۔ جس میں بہت سے چہرے مختلف کرداروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ آخر پہ یہی کہوں گا کہ آسناتھ کنول جو ادب کی شاخ کانٹوں پہ کھلا ہوا ایک ایسا خوش نما پھول ہے جس کی تازگی دنیائے اردو ادب میں ایک نئے دریچے کا وا ہونا ہے۔ بقول شاعر:

حقیقت پہ مبنی تھے کردار سارے
مرے پاس جھوٹی کہانی نہیں ہے

کوئی تبصرے نہیں