جمیل مرصع پوری اب ہمارے درمیان نہیں رہے
ممبئی (نمایندہ ٹیلنٹ(
ایک بے نام سی خوشبو تھی کہ لب چوم گئی |
میں کہ لینے بھی نہ پایا تھا ترا نام ابھی |
جیسے شعر کے خالق ہندوستان کے معروف اور بزرگ شاعر جمیل مرصع پوری اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ ان کے جانے سے ممبرا ہی نہیں، ممبئی، کلیان، بیونڈی اور دیگر شہروں کے ادبی حلقے ایک شفیق بزرگ کے سائے سے محروم ہوگئے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر 96 سال تھی، وہ عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے۔ ان کے پسماندگان میں فرزند (ندیم صدیقی، معروف شاعر و صحافی اور سابق رکن انقلاب، ممبئی) اور صاحبزادی کے علاوہ پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔
جمیل صاحب 15 جولائی 1931 کو موضع مرصع پور ضلع پرتاب گڑھ میں پیدا ہوئے۔ وہیں کے مدرسہ اسلامیہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ شعر و سخن کا ذوق بچپن ہی سے تھا جو ممبئی آ کر پروان چڑھا۔ 15 سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور فن شعر میں ایسی قدرت حاصل کی تھی کہ پروفیسر مجاہد حسین حسینی کے بقول وہ شاعری کی جملہ مشہور اصناف پر قادر تھے۔ جمیل مرصع پوری کو فن شاعری ہی میں کمال حاصل نہیں تھا بلکہ ٹیکسٹائل ڈیزائن میں بھی قدرت حاصل تھی۔ لکڑی پر عمدہ نقش نگاری، کمرشل آرٹ اور ٹیکسٹائل ڈیزائن ان کا ذریعہ معاش رہا۔ ممبئی میں ان کی رہائش باپو کھوٹے اسٹریٹ، جاملی محلہ، ممبئی 3، میں تھی مگر کم و بیش پچاس برس پہلے انھوں نے ممبرا کو رونق بخشی۔ ممبرا جا کر بسنے والے اولین لوگوں میں سے تھے۔ ممبرا کو شہرت بخشنے میں ان کی اپنی شہرت کا بھی دخل تھا۔ ”بزم اقبال“ قائم کی تھی جس کے تحت ہر سال یوم اقبال منایا جاتا تھا۔ اس میں کئی مشاہیر نے شرکت کی۔ اس بزم کے مشاعروں کی شہرت بھی دور دور تک تھی۔
نہایت خلیق، شفیق اور مخلص
بزرگ کی حیثیت سے ان کی قدر و منزلت ہر خاص و عام میں تھی۔ مشاعروں کی دنیا میں بھی
ان کا نام احترام سے لیا جاتا تھا۔ علامہ انجم فوقی بدایونی نے لکھا تھا کہ ”جمیل مرصع
پوری نے مشاعرے لوٹے بھی ہیں، مشاعرے پیٹے بھی ہیں، شعر فی البدیہہ بھی کہے ہیں اور
سوچ سمجھ کر بھی۔“ ان کا یہ شعر خاصا مشہور رہا:
اگر یہ ضد ہے کہ مجھ سے دعا سلام نہ ہو |
تو ایسی راہ سے گزرو جو راہِ عام نہ ہو |
متعلقین، مداحوں اور واقف کاروں کی بڑی تعداد کی موجودگی
میں درگاہ روڈ قبرستان (امرت نگر) میں انھیں سپرد خاک کیا گیا۔
کوئی تبصرے نہیں