ایم جے گوہر

غزل

 

میں اکثر تنہائی میں بیٹھا سوچتا رہتا ہوں

کتنے غم ہیں کتنی خوشیاں تولتا رہتا ہوں

سو رنگوں کی دنیا یا اک دنیا کے سو رنگ

نیلے پیلے رنگوں کے سُر جوڑتا رہتا ہوں

سنگ چلا دنیا کے میں یا دنیا میرے سنگ

بھولی بسری یادوں کے دَر کھولتا رہتا ہوں

گُل کی خاموشی کا مجھ کو راز نہیں معلوم

میں خوشبو کے لہجے میں کچھ بولتا رہتا ہوں

آنے والی کل کے سپنے دیکھ لیے اور میں

جانے والی کل کے غم میں روتا رہتا ہوں

غم کے مے خانے میں بیٹھا تنہائی کے سنگ

ساغر ساغر اشکوں کا رس گھولتا رہتا ہوں

جانے کیسے لوگ تھے گوہر جن کو بھول نہ پایا

جانے کیسے لوگ ملیں گے سوچتا رہتا ہوں

1 تبصرہ: