غزل

شاہدہ تبسم

جنگلوں میں بارشیں ہیں دور تک

جسم میں پھر وحشتیں ہیں دور تک

راستوں میں چھپ گئیں راتیں کہیں

خواب گہ میں آہٹیں ہیں دور تک

قرب کے لمحوں کی حیراں کوکھ میں

کچھ بچھڑتی ساعتیں ہیں دور تک

وہ کہیں گم ہو کہیں مل جاؤں میں

دھند جیسی چاہتیں ہیں دور تک

گھل رہی ہے جسم میں تنہا ہوا

فرقتوں میں فرقتیں ہیں دور تک

زرد پتے شام پھر بکھرا گئی

سانس لیتی ہجرتیں ہیں دور تک

ڈس گئی ہے پیڑ کو بھیگی ہوا

شاخ پر نیلاہٹیں ہیں دور تک

غرق ہوتے شہر کی جاں سے الگ

پانیوں پر راتیں ہیں دور تک

کتنی باتیں ان کہی سی رہ گئیں

نطق جاں میں حیرتیں ہیں دور تک

کوئی تبصرے نہیں