عوام کا پرسان حال کون؟

سوشل میڈیا پرمختلف یوٹیوب چینلز اور افراد کی رائے کے مطابق سال کے آخر میں تبدیلی کا شور جاری وساری ہے لیکن تبدیلی کے آثار نظر نہیں آرہے، البتہ مہنگائی نے عوام کو بد حال کردیا ہے۔

 تحریک انصاف کی حکومت نے مہنگائی کے حوالے سے سابقہ حکومتوں کو مات دے دی تھی، یادش بخیر! جنرل محمد ایوب خان کا جب ملک مارشل لاءلگایا تو مغربی پاکستان کے گورنر امیر محمد خان کا رعب و دبدبہ کا چرچا ہوا، جن کے ایک کڑک دار حکم سے تمام فلور ملز مالکان ودیگر محکموں کی جان نکل جاتی تھی اور مجال ہے کہ کوئی ایک خلاف جائے سب لوگ ان کے حکم سے ڈرتے تھے۔

 امیر محمد خان کو یکم جون1960میں صدر ایوب خان نے مغربی پاکستان کا گورنر مقرر کیا تھا اور وہ ستمبر1966میں مستعفی ہوئے۔ گورنر مغربی پاکستان کی حیثیت سے صوبے کے تمام امور پر ان کی گرفت مضبوط تھی اور اس کا راز یہ ہے کہ اہم عہدوں پر تعیناتی کے لیے انٹرویو وہ خود کرتے تھے اور خاندانی پس منظر اور ان کی خاندان کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے اور سلسلے میں ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ”ہم گھوڑا اور کتا خریدتے وقت شجرہ دیکھتے ہیں اور یہ تو ملک کا معاملہ ہے۔“ ایک بار تاجروں کا وفد ان سے ملنے گورنر ہاس کے دربار ہال میں جمع ہوا، جہاں ہال کے وسط میں صرف ایک کرسی رکھی تھی۔ تاجروں کا وفد ہال میں آکھڑا ہوا تو کچھ دیر کے بعد وہ ہال میں آئے اور وہاں موجود واحد کرسی پر بیٹھ کر کہا کہ ” لمبی چوڑی گفتگو کی گنجائش نہیں یہ جنگ کا زمانہ اور قربانی کا وقت ہے اگر کسی نے اشیائے ضروریہ ذخیرہ کیں یا مقررہ نرخ سے زائد پر فروخت کیں تو ذخیرہ شدہ سامان عوام میں تقسیم اور دکان مستقل طور پر سیل کردی جائے گی“ اور اس طرح وہ بغیر سیکیورٹی کے بازار میں پہنچ گئے کوئی تاجر مقررہ نرخ سے زائد پر گندم فروخت کر رہا تھا، اسے کہا کہ ” تم شاید یہ سمجھتے ہو کہ میں جنگ میں مصروف ہوں اور تم من مانی کرلو گے؟ میری مونچھ کو تا آنے سے پہلے نرخ اپنی جگہ پر آجائیں ورنہ اتنی سخت سزا دوں گا کہ دنیا یاد کرے گی۔“ اس کے بعد پورے صوبے میں ایسی کوئی شکایت سامنے نہیں آئی۔

 مہنگائی کا رونا روتے ہوئے ریاست مدینہ کے دعوی دار اپنے دور حکومت میں ہر چیز جس میں اشیاءضروریہ کے علاوہ ادویات بھی شامل ہیں مہنگی کردی تھیں، خاص کر وہ ادویات جو انسانی زندگی کو بچانے کے لیے تھیں اور

ان کے مختلف وزراءنے ایسے ایسے بیان دیے، کہ اگر ایک گولی قیمت 4 روپے کی تھی تو اب سات روپے اضافے سے کونسی قیامت آگئی ہے۔ حقیقت میں یہی غریب آدمی کے لیے قیامت یہی ہوتی ہے کہ اگر وہ یہ دوا دن میں تین بارکھائے، یعنی سابقہ حکمرانوں نے مہنگائی کو مسئلہ تسلیم ہی نہیں کیا، اسے ہم بدقسمتی کہہ سکتے ہیں۔ پرانے ادوار کے فوجی حکمران اچھے تھے، ان کے دور میں ڈیم بھی بنے، مہنگائی بھی کنٹرول کی گئی۔ یہ ملک بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سیلاب سے ملک تقریبا ڈوبا ہوا ہے راجن پور، سندھ،خیبر پختونخوا وغیرہ کے متاثرہ لوگوں کو امداد نہیں ملی ہے راجن پور کے ایک خیمے کے اندر سردی کے موسم میں تین تین خاندان کے لوگ رات بسر کرتے ہیں،کھانے پینے اور فصلیں تباہ، اس کی جانب کوئی پریشان ہیں البتہ وزیر غیر ملکی دورں پرگامزن، تحریک انصاف جلسوں کا ریکارڈ بنا رہی ہے ان جلسوں میں اب تک کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں کسی بھی جماعت کو عوام سے ہمدری نہیں، عوام رل گئے ہیں مہنگائی نے جینا حرام کردیا ہے۔ ملک میں امن وامان، اغوائ، بھتہ خور پولیس کی زیادتیاں اور چوروں اور ڈاکوں نے عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے،اس وقت پورا ملک یر غمال بنا ہوا ہے اللہ خیر کرے۔

 امید پر دنیا قائم ہے اور موجودہ حالات کے پیش نظر عمران خان کی رہائش گاہ جانے پر پابندی ہے اور رہائش گاہ کے ارد گرد سیکیورٹی کی غرض سے خفیہ آلات بھی نصب کر دیے گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے رہنماں اور صوبائی وزراءکی آمد دی گئی لسٹ سے مشروط کردی گئی ہے اور لانگ مارچ میں20 ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات ہیں ان کی سیکیورٹی پر ماہانہ دو کروڑ19لاکھ جبکہ سالانہ26کروڑ30لاکھ روپے سے زائد خرچ ہورہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت طرف سے فراہم کردہ اہلکاروں پر ماہانہ ایک کروڑ ستر لاکھ43ہزار800روپے خرچ ہورہے ہیں وفاقی حکومت کے علاوہ دیگر سیکیورٹی اہلکاروں پر ماہانہ 44 لاکھ 40ہزار روپے خرچ ہورہے ہیں لیکن بد قسمتی سے غریب ملک کا کیا بنے گا؟ حکومتی اخراجات بھی اربوں میں پہنچ چکے ہیں اور ملک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہے۔

کوئی تبصرے نہیں