ہندو شرفاء میں شعر و سخن کا ذوق عروج پر

تحریر:فاروق ارگلی (دہلی)

ایک وقت تھا جب دہلی میں مسلمانوں کی طرح ہندو شرفاءمیں بھی اردو زبان اور شعر و سخن کا ذوق عروج پر تھا۔ سال 1957ء میں راقم السطور نے پرانے شہر کے ایک ہفتہ واری مشاعرے میں کئی بار سامع کی حیثیت سے شرکت کی تھی۔ یہ ہفتہ واری مشاعرہ ہر اتوار کو پریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہوتا تھا۔ پارک میں ایک جگہ فرش بچھا دیا جاتا تھا، جس پر پرانے شہر کے معزز لالہ صاحبان شاعروں کی صف میں بیٹھتے۔

گول گول سیاہ ٹوپیاں لگائے دھوتی کرتے والے بزرگ اشعار سناتے۔ ایک صاحب باقاعدہ نظامت کرتے۔ ایک دن میرے ایک پہچان والے صاحب کا نام پکارا گیا:

اب تشریف لا رہے ہیں لالہ رتن لال مائل دہلوی، مالک رتن اینڈ کو بک سیلر دریبہ کلاں۔

میں انہیں سستی قسم کی کتابوں کے پبلشر کے طور پر اس لیے جانتا تھا کہ وہ میرا ایک بچکانہ سا ناول چھاپ چکے تھے لیکن انہیں باقاعدہ ترنم سے غزل پڑھتے ہوئے دیکھ کر حیرت ہوئی۔ لیکن بڑی حیرانی کی بات یہ تھی کہ لالہ بھوانی مل شاہین اور درشن لال مطرب جیسے اصحاب شعر پڑھتے اور سامعین داد بھی دیتے تھے اور کسی کے بے بحر شعر پر ٹوکتے بھی تھے۔ یہ دہلوی تہذیب کی شاید آخری جھلکیاں تھیں۔ سن 61-1960ء کے بعد یہ نظارہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

لیکن 70ء کی دہائی میں ایک صاحب کو اردو بازار میں ہر شام کو اپنے چند شاگردوں کے ساتھ اکثر دیکھا جاتا تھا۔ یہ تھے استاد ہیرا لعل فلک دہلوی۔

میلے کپڑے، خاکی صدری، اونچی ٹوپی، چہرے مہرے سے غریب ہی لگنے والے استاد سے جب شناسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ زبان و بیان اور عروض و بلاغت کے معاملے میں کتنے امیر کبیر انسان ہیں۔ سر تا پا دہلوی تہذیب کی جاتی ہوئی بہار کا پیکر!

فلک صاحب بےخود دہلوی کے شاگرد رہ چکے ہیں اور اب بہت سے نوجوان شاعروں کے استاد ہیں، ان کے تلامذہ میں ایک تھے مشہور بھجن گائیک ہم نام یعنی ہیرا لعل ہیرا۔ ان دنوں اردو زبان میں ماتا کی بھینٹیں گانے والے ہیرا جی کا بڑا نام تھا، ان کی کامیابی استاد فلک صاحب کی ہی مرہون منت تھی۔

استاد ہیرا لعل فلک کے ایک اور شاگرد تھے ساجن دہلوی، جبلی سینما کے پیچھے ہریجن بستی میں رہتے تھے۔ ہندی پڑھی تھی، شاعری کے شوق میں اردو سیکھی اور اب اپنے ساتھیوں کی غلطیوں پر بحث کرتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ بمبئی جا رہے ہیں، انھوں نے سورن سینما والے سردار سورن سنگھ جی کی فلم ”ٹھوکر“ کے گیت لکھے ہیں۔ ٹھوکر فلم بنی ، ساجن کے گیت بھی ریڈیو پر خوب چلے۔ ساجن کا جلد ہی انتقال ہو گیا، زندہ رہتے تو یقینا بڑے فلمی گیت کار ہوتے۔ محمد رفیع کی لاثانی آواز میں ساجن دہلوی کی ایک خوبصورت غزل اب بھی سنائی دے جاتی ہے:

اپنی آنکھوں میں بسا کر کوئی اقرار کروں
جی میں آتا ہے کہ جی بھر کے تجھے پیار کروں

استاد فلک کے ایک اور شاگرد راقم الحروف کے پرانے دوست تھے۔ ان کا تخلص بھی ساجن تھا، ساجن پشاوری۔ ہندی میں غزلیں لکھتے تھے اور اردو کے مشاعروں میں طمطراق سے سناتے تھے۔ غزلوں کے کئی مجموعے ناگری لیپی میں چھپے مگر کلام میں اردو زبان کی نفاست اور فصاحت اہل زبان سے کم نہ تھی۔

استاد ہیرا لعل فلک دہلوی ہندی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے ناگ لیلا، شری کرشن اور لو کش کتھا جیسی بہت سی مذہبی نظمیں لکھ رکھی تھیں۔ ان کے بھجن دہلی کے مندروں میں گائے جاتے تھے۔ لیکن جب اردو میں غزل کہتے تو زبان کا حسن اور شکوہ سننے والوں کو مبہوت کر دیتا۔ لیکن استاد رسمی طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھے۔ شاید انھوں نے جو بھی پڑھا سیکھا تھا اس میں ان کے شوق اور ریاضت کا ہی ہاتھ تھا۔

فلک صاحب کچہری میں چپراسی کے عہدے پر فائز تھے، کچہری سے چھٹی کے بعد سیدھے اردو بازار آ جاتے، پھر رات گئے تک شعر و شاعری اور تلامذہ کی تربیت و اصلاح کا کام جاری رہتا۔ اکثر شہر کے مشاعروں میں بڑی شان سے کلام سناتے ہوئے انہیں میں نے کئی بار دیکھا۔

سچ تو یہ ہے کہ استاد ہیرا لعل فلک دہلوی ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے آخری نمائندے تھے۔ کیونکہ ان کے بعد پرانے شہر کے ہندوؤں میں ان جیسا اردو کا استاد شاعر دیکھنے میں نہیں آیا۔ ایک مجموعہ کلام ”حرف صدا“ بھی شایع کیا، ان کے دستخط کے ساتھ اس کا ایک نسخہ راقم الحروف کے پاس موجود ہے۔

1987ءمیں ان کے انتقال کے بعد میں نے استاد کے ایک پاسپورٹ سائز فوٹو سے قد آدم پینٹنگ بنوائی تھی جو عالمی اردو کانفرنس میں اساتذہ کی تصویروں کے ساتھ پرگتی میدان میں سجائی گئی تھی۔

آج استاد کی اس تصویر کا عکس اور بوسیدہ حالت میں ان کا مجموعہ کلام پرانے کاغذوں میں ہاتھ آ گیا تو اس دور کا پورا منظر آنکھوں کے سامنے پھر گیا، جب استاد ہیرا لعل فلک اور ان کے استاد بھائی استاد رسا دہلوی کے درمیان ایسی گرما گرم بحث ہوتی کہ لگتا تھا دونوں ایک دوسرے پر حملہ کرنے والے ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد دونوں حضرات کو پاس پاس بیٹھے چائے پیتے اور دوستانہ باتیں کرتے دیکھا جاتا۔

پیش ہیں استاد فلک دہلوی کے چند اشعار:

سنا ہے چشمِ مورخ میں روشنی کم ہے
سنہری حرف بھی کچھ اپنی داستان میں رکھ
نہ داغ دامنِ قاتل پہ اور بھی ہو فلکّ
شناخت اپنے لہو کی کسی نشان میں رکھ

٭٭٭

عہد حاضر میں وہ بہتات ہے رنج و غم کی
بندہ گھبرا کے کوئی اور خدا مانگے ہے
سوچتا ہوں کہ مِلا کیا ہے خدا کے دَر سے
سانس لینے کو بھی انسان ہَوا مانگے ہے

2 تبصرے: