نثری نظم
”زندگی“
روبینہ ممتاز روبی |
چلو ہم زندگی جیتے ہیں
پھر سے
بھلا دو تم بھی ساری
رنجشوں کو
بھلا دوں میں بھی دل کی
تلخیاں سب
کریں آ غاز پھر سے اک سفر
کا
نیا رشتہ بنائیں دوستی
کا
مگر ہاں! یاد رکھنا ، یاد
رکھنا
چلیں گے ساتھ لیکن مصلحت
سے
تقاضا ہے نئے رشتے کا یہ
بھی
نہ میں کوئی توقع تم سے
رکھوں
نہ تم مجھ سے کوئی اُمید
رکھنا
تمہارے جھوٹ پر میں چپ
رہوں گی
میں بولوں جھوٹ جب تم بھی
سہو گے
کہ سچائی بہت ظالم ہے‘
ظالم
دلوں کو جوڑ کر رکھنا ہے
گر تو
ہمیں اتنا تو پھر کرنا
پڑے گا
یہ رشتہ ہے اگر منظور تم
کو
تو پھر آؤ کریں آ غاز پھر سے
چلو ہم زندگی جیتے ہیں
پھر سے
کوئی تبصرے نہیں