غزل

سلمان صدیقی


غزل

اب دوستوں میں خوئے رفاقت نہیں رہی
کیا جان دیجیے کہ روایت نہیں رہی
مقبول ہو رہا ہے دل آزاریوں کا فن
اب رسم اعترافِ ندامت نہیں رہی
بے گانگی کو آنکھ کا پردہ بنا لیا
لوگوں کو آشناءکی حاجت نہیں رہی
کرنے لگے ہیں بخل بڑے بھی دعاﺅں میں
بچوں کو بھی سلام کی عادت نہیں رہی
لکھوا رہے ہیں لوگ غزل قیمتاً یہاں
سچے سخن کی اب کوئی حرمت نہیں رہی
جب سے نہیں ہے اس میں محبت مرے لیے
مجھ کو بھی اس نگاہ سے نسبت نہیں رہی
میں نے بھی ہاتھ دور سے رسماً ہلا دیا
اس کو بھی پاس آنے کی عجلت نہیں رہی
ویران ہو گیا وہ دریچہ تو ہم کو بھی
گملوں سے گیلری کے وہ رغبت نہیں رہی
دیکھا مجھے تو آنکھ بچا کر گزر گئے
سلمان جن کو میری ضرورت نہیں رہی

یہ بھی پڑھیں: غزل

1 تبصرہ: