غزل

ایم۔جے گوہرؔ


غزل

دل بھی ہوا دھواں دھواں رنگِ وفا کے ساتھ ساتھ
دردِ جگر بڑھا تری طرزِ جفا کے ساتھ ساتھ
دودِ چراغِ بزم اور‘اشکوں کی شام اور ہے
طرزِ وفا بدل گئی رنگِ حنا کے ساتھ ساتھ
گرنے لگیں جو بجلیاں چلنے لگیں پھر آندھیاں
جلتا رہا ہے آشیاں زورِ ہوا کے ساتھ ساتھ
وہ تو مرا رفیق تھا‘ہاں وہی کل جو مر گیا
ہم بھی گئے مزار تک‘آنسو بہا کے ساتھ ساتھ
روئے لپٹ لپٹ تری یادوں کے آستاں سے ہم
خونِ جگر بہا مرا خونِ وفا کے ساتھ ساتھ
اب نہ کھِلیں گے گُل کبھی‘اب نہ ملیں گے دل کبھی
ہم نے تجھے بھلا دیا ترکِ وفا کے ساتھ ساتھ
کھویا رہا میں ہر گھڑی گوہر اسی خیال میں
کیوں لوگ سب بدل گئے اِک بے وفا کے ساتھ ساتھ

کوئی تبصرے نہیں