غزل
ڈاکٹر شاہد صدیقی |
غزل |
مجھے اب شراب دو شباب میرے بس کا نہیں |
مجھے بس سوال دو جواب میرے بس کا نہیں |
ہاتھ میں طاقت نہیں جو زلف کا بوجھ اٹھائے |
سامنے سے ہٹا دو خواب میرے بس کا نہیں |
سر سے پیر تک لپٹی لباس میں مگر وہ نظر |
اپنی پلکیں اٹھاؤ حجاب میرے بس کا نہیں |
گزرے وقتوں کی باتیں اب دھراؤ نہ مجھ سے |
بچا رکھی ہے راکھ حساب میرے بس کا نہیں |
عمر گزری ساری جہالت کے تاریک خانوں میں |
روشنی کا کوئی امکان جناب میرے بس کا نہیں |
مجھے کوستے ہو کہ ہر وقت غرق رہتا ہوں |
دوبارہ پڑھوں وہی کتاب میرے بس کا نہیں |
کوئی تبصرے نہیں