غزل

ایم۔جے گوہر


غزل

جانے کیوں سُونا سُونا یہ گھر ہے
چاند تو چاندنی کا محور ہے
خواہشیں سب کی ڈوب جاتی ہیں
زندگی درد کا سمندر ہے
کیوں بنایا ہے سائباں تم نے
برق کی زد میں تو مرا گھر ہے
سانس رُک رُک کے آ رہی ہے کیوں
اس بدن میں بھی کوئی خنجر ہے؟
سوکھے زخموں سے رِس رہا ہے لہو
اُن کی باتوں میں ایسا نشتر ہے
وہ کہانی وفا کی بھول گیا
اور ہر لفظ مجھ کو ازبر ہے
کیا طلب ہو محبتوں کا عوض
عدل کا دن تو روز محشر ہے
اب تو جینے کا حوصلہ بھی نہیں
ہر قدم کھائی ایسی ٹھوکر ہے
جوکہ رازِ حیات پا نہ سکا
وہ نہ گوہرؔ ہے اور نہ اکبر ہے

کوئی تبصرے نہیں