غزل

ایم۔جے گوہر


غزل

اپنے کیے پہ کون پشیماں ہے آج کل
چہرے پہ کس کے داغ نمایاں ہے آج کل
سیلابِ غم میں بہہ گئے ارمانِ زندگی
چشمِ حیات دیدہ طوفان ہے آج کل
آ تو گئے جہاں میں مگر سوچتے ہیں اب
جینے کا کتنے دن یہاں امکاں ہے آج کل
دل کے کنول نہ کھِل سکے فصلِ بہار میں
ہر شخص لیے سینہ بریاں ہے آج کل
لفظوں کو محترم کرے فکرِ جمیل کیا
رنگِ سخن بھی خوابِ پریشاں ہے آج کل
میرے وطن کی ساری فضائیں اُداس ہیں
صبحِ بہار شامِ غریباں ہے آج کل
بولا جو سچ تو اُس کی زباں کاٹ دی گئی
دستورِ زندگی کا یہ عنواں ہے آج کل

کوئی تبصرے نہیں