قصہ بڑھاپے کا


مرزا یاسین بیگ

بڑھاپا .... پوچھ کر نہیں آتا، اور نہ ہی دھکے دینے سے جاتا ہے۔ مشرق میں یہ مرض اور مغرب میں زندگی انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں دانت جانے لگتے ہیں اور دانائی آنے لگتی ہے۔ اولاد اور اعضا جواب دینے لگتے ہیں۔ بڑھاپا آتا ہے تو مرتے دم تک ساتھ نبھاتا ہے۔ بڑھاپے کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ حسین لڑکیاں ”انکل“ کہہ کر پکارنے لگتی ہیں۔ انسان دو چیزیں مشکل سے قبول کرتا ہے، اپنا جرم اور اپنا بڑھاپا۔

 ہمارا بچپن دوسروں کی دل جوئی اور خوشی کے لیے ہوتا ہے، جوانی صرف اپنے لیے ہوتی ہے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کے لیے۔ جب بار بار اللہ، ڈاکٹر اور بیوی یاد آنے لگے تو سمجھ لیں آپ بوڑھے ہو رہے ہیں۔ بڑھاپے کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بے ضرر ہوتے جا رہے ہیں، اپنے سوا کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

جب بچے آپ کو ” نانا، دادا “ کہہ کر اور حسین لڑکیاں ”انکل“  کہہ کر پکارنے لگیں تو تردد سے کام نہ لیں۔ تنہائی پاتے ہی غم بھلانے کے لیے سیٹی بجائیں کیونکہ آپ سیٹی ہی کے قابل رہ گئے ہیں۔ بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے کہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ہے۔ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، الگ چیز ہے، بوڑھا دکھائی دینا الگ۔  ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوان چھپا ہوتا ہے۔

بوڑھا ہونا آسان کام نہیں، اس کے لیے برسوں کی ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا نہ چل پاتی اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔ بڑھاپے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بوڑھے کو دیکھ کر سب سیٹ چھوڑ دیتے ہیں، سوائے سیاست دان کے۔ اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔ بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کا دھندہ بالکل مندا ہوتا۔ بوڑھوں کو بندی اور منصوبہ خانہ بندی دونوں کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر نیت اور نظر پھر بھی خراب رہتی ہے۔

 مغربی عورت نہ اپنی عمر چھپاتی ہے نہ جسم۔  پاکستان میں جو عورت اپنی عمر پینتیس سال بتاتی ہے، وہ پچاس سال کی دکھائی دیتی ہے۔ دنیا میں سب سے آسان کام نانا ، نانی یا دادا دادی بننا ہے۔ اس میں کوئی کوشش نہیں کرنی پڑتی ، جو کچھ کرنا ہوتا ہے آپ کے بچوں کو کرنا پڑتا ہے۔ انسان کو زندگی میں دو بار رشتوں کی اصلیت کا پتا چلتا ہے، بیوی کے آنے کے بعد یا پھر بڑھاپا آنے کے بعد۔ ہر بچے کے اندر ایک بوڑھا چھپا ہوتا ہے بشرط یہ کہ وہ عمر لمبی پائے۔ کیا باکمال دور ہے یہ آغاز بڑھاپا بھی۔ بچپن میں ہم ٹیسٹ دیا کرتے یا ٹیسٹ دیکھا کرتے تھے۔ اب ڈاکٹر عمر رسیدہ کے لیے یہی پیغام ہے کہ دنیا سے انجوائے کریں قبل اس کے کہ دنیا آپ سے انجوائے کرے۔

کوئی تبصرے نہیں