”دینِ مبین کا ایک طائرانہ جائزہ“



مبصر۔ رعنا شاہین، کراچی

وقت حاضر میں جب علمی، ادبی اور تحقیقی افق پر جگمگاتے ستارے خال خال نظر آتے ہیں، ایک نام ذہن کے قرطاس پر ضرور ابھر آتا ہے اور وہ نام ہے ”انجینئر مسعود اصغر کمالی“ کا۔ مسعود کمالی کا نام قارئین کے لیے نیا نہیں وہ گزشتہ چوبیس پچیس سالوں سے کالم اور مضمون نگاری کی دنیا سے وابستہ ہیں، مسعود اصغر کمالی ایک علمی و ادبی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں، جامعہ سرسید اور جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل ہیں۔ اپنے اظہاریوں میں انھوں نے مادر وطن میں پیدا ہونے والے مسائل کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ ان کے حل کے لیے مفید تجاویز بھی دیں جس سے آپ کا مقصد ایک مفید معاشرے کا قیام ہے۔ آپ کا کالم ”گولڈن گرلز“ محض ایک اظہاریہ ہی نہیں بلکہ کراچی کی خواتین کی ان تمام کوششوں کی تاریخ ہے جو وجودِ پاکستان کے فوراً بعد سے اور اب تک کی گئی، جو آئندہ آنیوالی خواتین کے لیے ایک کبھی نہ بجھنے والی شمع بھی ہے۔ ”دینِ مبین: رشد و ہدایت کا دائمی منشور، مومنوں کی فلاح کا نسخہ کیمیا۔“ مسعود کمالی کے دوران طالب علمی کے کالمز، مضامین ہیں، جن کو یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔ یہ کالمز دینِ اسلام کی آفاقی تعلیمات کے گوناگوں پہلوؤں پر قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھے گئے ہیں۔

کتاب کی ابتدا میں ”اوراق زیست“ کے عنوان سے آپ نے اپنی مختصر سی سوانح بھی تحریر کی ہے۔ اس تالیف کے کئی باب ہیں۔ پہلے باب میں سیرتِ پاکﷺ اور بی بی عائشہؓ صدیقہ کی عظیم الشان شخصیت کے روشن پہلوؤں جو کہ امت کے لیے درخشاں مثال ہیں ان کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں مختلف اہم عنوانات پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مضامین ہیں۔ اس باب میں آپ کا کالم اسلام کے بنیادی عقائد ہے جس میں آپ نے بڑے ہی جامع انداز میں بڑی حکمت و دانائی کی بات کی کہ ’دینِ حق کے بنیادی عقائد اور ان پر ایمان جوکہ دین کا لازمی تقاضا ہے ان کا اقرار صرف زبان سے ہی نہیں بلکہ دل سے بھی ہونا چاہیے کیونکہ یہی ایک مومن کی معراج ہے، اس کالم کو قارئین کی اتنی پذیرائی حاصل ہوئی کہ ٹھیک ایک سال بعد اسے اسی دینی صفحے پر اس کی دوبارہ اشاعت ہوئی۔ اسی باب میں آپ کا ایک دوسرا کالم استاد کی عظمت پر بہ عنوان ’علم و معلم‘ بھی ہے جس میں آپ نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ انسانی وقار کا راز ”علم“ میں ہی ہے، علم کی بدولت ہی انسان کو ”اشرف المخلوقات“ کا درجہ عطا ہوا۔ معلم کی قدر و منزلت کا اندازہ ہم حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے منقول اس حدیث سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں جس میں آپﷺ نے فرمایا ’میں بھی معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘ تیسرے باب میں رمضان المبارک کے فضائل و برکات کے حوالے سے مختلف ارکانِ رمضان قرآن و حدیث کے حوالوں سے بیان کیے گئے ہیں۔ اسی باب میں آپ کا ایک مضمون بہ عنوان ”نماز تراویح“ ہے جس میں آپ لکھتے ہیں کہ نماز تراویح ہر عاقل بالغ مسلمان مرد و عورت کے لیے ”سنت مؤکدہ علی الکفایہ“ ہے تاکہ مسلمان اس کو ترک کرنے سے باز رہیں، بلاشبہ یہ فرض نہیں لیکن ایسی سنت ہے جس کا ادا کرنا بے انتہا اجر و ثواب کا باعث ہے۔ باب چہارم میں دینِ اسلام کے چند لائق نامور سپوتوں کی حیات و خدمات کا مختصر طور پر احاطہ کیا گیا ہے جو کہ آپ کی آنے والی کتاب ”گوھر نایاب“ کا آغاز بھی ہے۔ پانچواں باب میں دو اہم مضامین کو مرتب کیا گیا ہے، جن میں ایک آپ کی والدہ نے رسالہ ”طلوعِ سحر“ کے لیے تحریر کیا تھا اور دوسرا ان کی سرپرستی میں لکھا جانے والا مقالہ ہے۔ چھٹے باب میں صاحبان علم و عرفان کے تجزیے، تبصرے ہیں آپ کے کالمز اور کتابوں پر۔ مسعود کمالی لکھتے ہیں کہ انسانی زندگی کا سفر اذان سے نماز تک کا ہے اس مختصر سے سفر میں اذان ہو چکی اب نماز باقی ہے دوران سفر کچھ ایسا کر جائیں جس سے ہمارا علم صرف ہم تک محددود نہ رہے بلکہ خلق خدا کے لیے نفع کا باعث بن جائے۔ اللہ کریم ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے (آمین)۔

یہ کتاب، قارئین اور تہذیب و تمدن کی آئینہ دار تحریروں کے متلاشی لوگوں کے لیے بہت بڑا علمی خزانہ ہے، جسے ہر لائبریری کی زینت بننا چاہیے۔ ’دین مبین‘ کے ناشر اولڈگولڈ بوائز بائیو میڈیکل انجینئرنگ، جامعہ سرسید ہیں جو نیشنل ایجوکیشنل پبلی کیشنز کے اہتمام سے منصئہ شہود پر آئی۔

کوئی تبصرے نہیں