خوش فہمیاں اور خوش گمانیاں

Dr. Mansoor Noorani

عجیب صورتحال ہے کہ ہم سب کچھ اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اس سے نظریں بھی چرا رہے ہوتے ہیں مگر اپنے معاملات میں کسی ادارے کی مداخلت کے خلاف آواز بلند کرکے فخریہ طور پر یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جیسے ہم نے پہلی بار اس ملک میں آواز حق و صداقت بلند کی ہے۔ ایک طرف آج بھی سب کی نظروں کے سامنے کھلم کھلا مداخلت ہورہی ہے اور دوسری طرف انصاف کے علم بردار اپنے تئیں یہ گمان کررہے ہوتے ہیں کہ جیسے وہ صرف ایک خط کے ذریعے اس مداخلت کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے روک لیں گے۔ ابھی حال ہی میں ہمارے یہاں سینیٹ کے انتخابات کروائے گئے اور اس میں سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور فیصل واؤڈا جو کسی بھی سیاسی پارٹی کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بڑی آسانی سے یہ الیکشن جیت کر پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے ممبر بن گئے۔ اُن کی انتخابی مہم کس نے چلائی اور اُنہیں سیاسی پارٹیوں کی غیر مشروط حمایت کیسے حاصل ہوگئی یہ سب کچھ ایسا راز ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ فیصل واؤڈا تو ایک روز پہلے تک ٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف دل کھول کر ہرزہ سرائیاں کرتے رہے مگر اُنہیں ووٹ دینے والوں میں ایم کیو ایم کے علاوہ صوبہ سندھ کی حکمران پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی بھی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اُنہیں ووٹ دیکر اپنی ایک سیٹ پر سمجھوتہ کیوں اور کیسے کردیا اس کی وضاحت بھی دینے سے وہ ہچکچا رہی ہے۔ اسی طرح صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ نون نے محسن نقوی کو جتا کر کس کے حکم کی عملداری کی ہے یہ بتانے سے وہ بھی قاصر ہے۔ اپنے ایک مخلص کارکن کو جتوانے کی بجائے سیاسی طورپر ایک اجنبی اور نئے شخص کو پہلے PBC کا چیئرمین بنایا اور پھر اُسے کابینہ میں شامل کرنے کی غرض سے اب سینیٹ کا منتخب ممبر بھی بنا دیا۔ اداروں کے اثر و رسوخ اور اُن کی طاقت کا اندازہ ہم اِن واقعات سے بخوبی کرسکتے ہیں۔ ایک طرف ہم سرکاری اور عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں تو دوسری طرف آج بھی اُن کی مداخلت کے آگے سر نگوں ہو کر مکمل طور پر عملدرآمد کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی ایک فریق کو بھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ اس سے انکار کر سکے۔

 دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے بانی نے بھی اب اپنا پینترا بدلنا شروع کر دیا ہے، اُنہیں شاید یہ احساس ہوچکا ہے کہ اس کے بغیر کوئی چارا بھی نہیں ہے۔ پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے اُن کے اور اُن کے ساتھیوں کے حق میں دھڑا دھڑ فیصلے آ رہے ہیں جسے دیکھ کر اُن کا رویہ بھی نرم پڑنے لگا ہے اور وہ محاذ آرائی کی سیاست کو کچھ دنوں کیلئے ختم کرنے پر راضی اور رضامند دکھائی دینے لگے ہیں۔ میاں نواز شریف کو جیل میں ملنے والی سہولتوں کو بند کرنے والے آج جب خود مکافات عمل سے گزرنے لگے تو تمام سہولتوں سے نہ صرف لطف اندوز ہورہے ہیں بلکہ سرکاری خرچ پر شاہانہ زندگی بھی گزار رہے ہیں۔ اس قید سے پہلے ایک آزاد شخص کے طور پر زندگی گزارنے کیلئے اُنہیں اپنی جیب سے لاکھوں روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا تھا مگر اب اُنہیں سات کمروں کے علاوہ AC اور ورزش سمیت تمام وہ آسائشیں مفت میں فراہم کردی گئیں ہیں جن کو بروئے کار لانے کیلئے محترم کو اچھا خاصہ پیسہ خرچ کرنا پڑتا تھا۔ جیل میں رہنے سے اُن کی حفاظت بھی سرکار کی ذمے داری بن گئی ہے۔ وہ اس قید میں اپنی پارٹی کی قیادت بھی بلا روک ٹوک کررہے ہیں اور تمام اہم فیصلے بھی مرہمت فرما رہے ہیں۔ اتنی آسانیاں اور سہولتیں اگر ہمیں بھی مل جائیں تو کون کافر اس سے فرار اختیار کرنا چاہے گا۔

 اب آتے ہیں اُن خوش گمانیوں کی طرف جن کی توقع ہم سب نے عدلیہ سے لگا رکھی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ معزز ججز نے ایک خط چیف جسٹس سپریم کورٹ کو لکھ کر اپنا کام اُن کے ذمے تھوپ دیا ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ کام وہ چاہتے تو خود بھی کرسکتے تھے۔ بقول چیف جسٹس عدالت عالیہ قاضی فائز عیسیٰ اِن عدالتوں کو بھی وہ ساری مراعات اور اختیارات حاصل ہیں جن کو استعمال کرکے وہ اپنے اوپر کسی بھی دباؤ کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ اُن کے مطابق چھ ماہ سے جب سے وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے ہیں اُن پر تو ایسا کوئی دباؤ ابھی تک آیا نہیں ہے۔ یعنی جب آئے گا تو دنیا دیکھے گی وہ کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ بلکہ دیکھا جائے تو PTI کے وکلاءنے اُن پر دباؤ ڈال کر اپنے سارے مطالبے منوا لیے ہیں۔ ججوں کے خط کو لیکر جس تحقیقاتی کمیشن کا اعلان کیا گیا تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا ہے اور سپریم کورٹ نے ایک سوموٹو کے تحت ایک لارجر بینچ تشکیل دیکر سماعت بھی شروع کردی ہے۔ مگر جب اس لارجر بینچ کی تشکیل پر بھی ہمارے یہاں کچھ لوگ مطمئن نہیں ہوئے تو وعدہ کیا گیا ہے کہ اگلی سماعت پر فل بینچ بھی بنا دیا جائے گا بشرطیکہ سارے ججز دستیاب ہوں۔ ایک طرف ہماری پشاور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ بانی پی ٹی آئی اور اُن کے ساتھیوں کو مسلسل ریلیف بھی دے رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ شکوہ بھی ہے کہ کوئی نادیدہ دباؤ اُنہیں عدل و انصاف کے مطابق فیصلے کرنے میں حائل اور مانع ہے۔ یہ عجیب دباؤ ہے کہ جس کے تمام فائدے اور ثمرات تو صرف ایک پارٹی کیلئے ہی نظر آ رہے ہیں اور وہی شور مچا رہی ہے کہ عدلیہ پر خفیہ دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

 پس پردہ دباؤ کی بڑی بڑی مثالیں تو ہمیں ماضی بعید اور ماضی قریب میں بہت ملتی رہی ہیں مگر اس وقت کسی نے اس پر منحنی سے بھی آوازِ مخالف بلند نہیں کی۔2017 اور 2018 میں جس طرح یکطرفہ فیصلے کیے جا رہے تھے یہ جرات رندانہ تو اس وقت دکھانا چاہیے تھی۔ جب پانامہ اسکینڈل کو بہانہ بنا کر ایک منتخب وزیراعظم کو عدالتی حکم کے تحت تاحیات نا اہل کروا کے اقتدار سے معزول اور محروم کردیاگیا اور نیب کو بھی اس بات کا پابند کر دیا گیا کہ صرف دو ماہ کے عرصے میں میاں نوازشریف کے کیسوں کا فیصلہ کرکے اُنہیں قرار واقع سزا دے، پھر اسی پر اکتفا بھی نہیںکیا گیا اور نیب کے اعصاب پر اور سروں پر ایک نگران جج سوار کر دیا گیا۔ کیا یہ سب کچھ آئین و دستور کے مطابق ہورہا تھا ۔اس وقت کسی ایک جج نے بھی دلیری اور ہمت نہ دکھائی اور سب کچھ خاموشی سے برداشت کیا گیا۔ ستم بالائے ستم ہمارے ایک جج شوکت صدیقی نے بعد ازاں جب حقیقت حال اور پس پردہ عوامل بتانے کی ہمت کی تو اُنہیں بھی نشان عبرت بنا دیا گیا۔ یہ سارا ظلم و ستم ڈھٹائی کے ساتھ ہوتا رہا اور سارے حق پرست چپ سادھ ہوکر زبانیں بند کیے بیٹھے رہے۔ اور تو اور آج سے ایک سال پہلے تک بھی جو کچھ ہوتا رہا اس پر بھی کسی نے آواز حق بلند نہیں کی۔ معزز عدالتیں چند منٹوں کی سماعت میں صرف ایک ملزم کو تمام کے تمام کیسوں میں بیک وقت ضمانتیں دیتی رہیں بلکہ اُن متوقع اور ممکنہ جرائم میں بھی پیشگی ضمانتیں عطا کر دی گئیں جواس نے ابھی کیے بھی نہیں ۔اس طرح انہیں کھلی چھٹی دے دی گئی کہ جاؤ دل کھول کر قانون کی خلاف ورزیاں کرو ہم نے تمہیں پہلے ہی اُن تمام خلاف ورزیوں کی ایڈوانس ضمانت دے دی ہے۔

 سوال یہ ہے کہ چھ ججوں نے کس ان دیکھے دباؤ یا مداخلت کو محسوس کر کے ہماری اعلیٰ عدالت کو یہ خط تحریر کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی اگلی سماعتوں میں اس کا تعین بھی ضرور کیا جائے گا کیونکہ اس کو جانے بغیر کوئی کارروائی مکمل ہو ہی نہیں پائے گی اور پھر اگر وہ سامنے لایا بھی گیا تو اس انجانے دباؤ یا مداخلت کا موازنہ 2018 کے دور سے بھی ضرور کیا جائے گا، کیونکہ اس کو شامل کیے بغیر اس خفیہ مداخلت کا تعین اور تدارک نہ صرف مشکل بلکہ سعی رائیگاں ہی ہوگا۔

1 تبصرہ: