غزل
آہیں کسی کے نام پہ بھرتی نہیں ہوں میں
آہیں کسی کے نام پہ بھرتی نہیں ہوں میں |
تا عمر کے فراق سے ڈرتی نہیں ہوں میں |
جس موڑ پر وہ چھوڑ کے مجھ سے ہوا الگ |
بھولے سے بھی وہاں سے گزرتی نہیں ہوں میں |
دھوکہ ہے اک فریب ہے حسن و شباب بھی |
بس اس لیے تو سجتی سنورتی نہیں ہوں میں |
کہتے ہو میری شاعری کچھ کام کی نہیں |
بے کار کام کوئی بھی کرتی نہیں ہوں میں؟ |
مجھ کو ملے جو درد مقدر میں تھے لکھے |
الزام تو کسی پہ بھی دھرتی نہیں ہوں میں |
آئے گا کون ملنے مجھ سے وہاں صدف |
رہتی ہوں زیر آب ابھرتی نہیں ہوں میں |
کوئی تبصرے نہیں