میں نے سوچا کہ اک نظم لکھوں
پھر یہ سوچا کہ کس موضوع کے تحت
اور عنوان کیا ہوگا اس کا
پھر خیال آیا کہ دقت کیا ہے
شاعری کا مزاج عشق ہی تو ہے
ایک محبوب کو تراشنا ہے
اس کی تعریف اور ستائش میں
جتنے چاہے فسانے گھڑ لوں گا
ایک مالا ہے محبت اس میں
جتنے الفاظ چاہے جڑ لوں گا
بیچ میں ڈال کے کچھ ہجر و فراق
کچھ گلے شکوے اور وصل کی رات
ایسے کرکے نظم تو بنتی ہے
کوئی تنقید کیوں کرے اس پر
اس سے پہلے جو نظم لکھی گئی
اس کا موضوع بھی تو یہی کچھ تھا
سو میں آغاز کر رہا تھا جب
یاد آیا مجھے کہ کل کی صبح
مجھے بچوں کی فیس بھرنی ہے
اور بجلی کا بل۔خدا کی پناہ
اتنی مہنگائی میں یہ سودا سلف
ساتھ گھر کا کرایہ دینا ہے
پھر خیال آیا کوئی بات نہیں
یہ مسائل تو سب کے سانجھے ہیں
گویا پھر سے ذہن کو یکسو کیا
اور ٹھانی کہ نظم لکھنی ہے
لیکن پھر یاد آگئی بیٹی
جو ابھی ساتویں جماعت میں ہے
اس نے صبح ہی کہا تھا مجھ سے
ابو! یہ بُکس مجھے لا دینا
میرا ایگزام ہے اگلے ہفتے
اس کے لہجے کی بے بسی نے مجھے
پھر نظم سے ذرا سا دور کیا
میں نے دیکھا کہ میرے گردوپیش
ایسا کچھ بھی تو نہیں قابل ذکر
گھر کا سامان ٹوٹا پھوٹا ہے
حال یہ ہے کہ مہینوں گزرے
میں کوئی پھل نہیں لایا گھر میں
بوڑھی بیمار اپنی ماں کے لیے
کوئی جوڑا نہیں بنا پایا
پھر میری نظم کا عنوان ہو کیا ؟
کیا وہ محبوب چاند سورج سا ؟
جس کی زلفیں سیاہ رات سی ہوں
وہ سبھی کھو گئےذہن میں نہیں
ہاں مری نظم کا موضوع ہوگا
کچے بیمار اور مہنگائی زدہ
کچھ مکانات ان پہ چھائی ہوئی
ایسی غربت جو سیاہ کائی سی ہے
ایسی بستی جہاں نہ دن نکلے
جہاں سورج غروب رہتا ہو
جہاں الفاظ ڈوب جاتے ہیں
جہاں احساس ٹوٹ جاتے ہیں
کوئی تبصرے نہیں