میں نے سوچا کہ اک نظم لکھوں

Rao Saif Uzzaman

پھر یہ سوچا کہ کس موضوع کے تحت

اور عنوان کیا ہوگا اس کا

پھر خیال آیا کہ دقت کیا ہے

شاعری کا مزاج عشق ہی تو ہے

ایک محبوب کو تراشنا ہے

اس کی تعریف اور ستائش میں

جتنے چاہے فسانے گھڑ لوں گا

ایک مالا ہے محبت اس میں

جتنے الفاظ چاہے جڑ لوں گا

بیچ میں ڈال کے کچھ ہجر و فراق

کچھ گلے شکوے اور وصل کی رات

ایسے کرکے نظم تو بنتی ہے

کوئی تنقید کیوں کرے اس پر

اس سے پہلے جو نظم لکھی گئی

اس کا موضوع بھی تو یہی کچھ تھا

سو میں آغاز کر رہا تھا جب

یاد آیا مجھے کہ کل کی صبح

مجھے بچوں کی فیس بھرنی ہے

اور بجلی کا بل۔خدا کی پناہ

اتنی مہنگائی میں یہ سودا سلف

ساتھ گھر کا کرایہ دینا ہے

پھر خیال آیا کوئی بات نہیں

یہ مسائل تو سب کے سانجھے ہیں

گویا پھر سے ذہن کو یکسو کیا

اور ٹھانی کہ نظم لکھنی ہے

لیکن پھر یاد آگئی بیٹی

جو ابھی ساتویں جماعت میں ہے

اس نے صبح ہی کہا تھا مجھ سے

ابو! یہ بُکس مجھے لا دینا

میرا ایگزام ہے اگلے ہفتے

اس کے لہجے کی بے بسی نے مجھے

پھر نظم سے ذرا سا دور کیا

میں نے دیکھا کہ میرے گردوپیش

ایسا کچھ بھی تو نہیں قابل ذکر

گھر کا سامان ٹوٹا پھوٹا ہے

حال یہ ہے کہ مہینوں گزرے

میں کوئی پھل نہیں لایا گھر میں

بوڑھی بیمار اپنی ماں کے لیے

کوئی جوڑا نہیں بنا پایا

پھر میری نظم کا عنوان ہو کیا ؟

کیا وہ محبوب چاند سورج سا ؟

جس کی زلفیں سیاہ رات سی ہوں

وہ سبھی کھو گئےذہن میں نہیں

ہاں مری نظم کا موضوع ہوگا

کچے بیمار اور مہنگائی زدہ

کچھ مکانات ان پہ چھائی ہوئی

ایسی غربت جو سیاہ کائی سی ہے

ایسی بستی جہاں نہ دن نکلے

جہاں سورج غروب رہتا ہو

جہاں الفاظ ڈوب جاتے ہیں

جہاں احساس ٹوٹ جاتے ہیں

کوئی تبصرے نہیں