آئٹزم کیفیات میں بحالی کے امکانات
خرم ضیاء خان |
سات سالہ صبوحی کو پڑھنے اور لکھنے میں مشکلات کا سامنا
تھا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک کسی کام پر توجہ بھی نہیں دے پاتی، وہ
کسی بھی طرح معذور نہ تھی لیکن وہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثر تھی، یہ ایک ذہنی عدم توازن
ہے جو قابل علاج بھی ہے، لیکن اکثر لوگ اس بات سے واقف نہیں ہیں۔
صبوحی کا تھراپی مراکز میں
علاج شروع ہوا، اسے علاج کرانے میں ہچکچاہٹ تھی، لیکن کچھ مختصر وقت کے بعد ماہرانہ
رہنمائی سے اس کی صلاحیتیں بہتر ہوگئیں۔ ابتدائی طور پر وہ تعلیمی میدان میں بڑھتے
ہوئے دباؤ کا
شکار تھی اور اسے اپنے اسکول میں معاشرتی سطح پر مشکلات کا سامنا تھا، لیکن آج دو سال
کی تھراپی کے بعد صبوحی نے قابل ذکر پیش رفت کرلی ہے۔ اب وہ شخصیت میں نکھار لانے کے
ساتھ تعلیمی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے زیادہ پر اعتماد ہے۔
صبوحی ان خوش قسمت بچوں میں
شامل تھیں جن کے والدین نے اپنی بچی میں ذہنی عدم توازن کے معاملے کو اہم جانا اور
اپنی بچی کو معاشرے کا مفید فرد بنانے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے ارتکاز میں کمی / فعالیت
میں عدم توازن (اے ڈی ایچ ڈی) سے متاثرہ بیشتر بچے اتنے خوش قسمت نہیں ہیں۔
ذہنی عدم توازن کے عارضے
جیسے اے ڈی ایچ ڈی، لرننگ ڈس آرڈر (سیکھنے میں مشکلات) اور آٹزم معاشرے کے ہر طبقے
میں پھیلے ہوئے ہیں لیکن ان سے متعلق عدم آگہی اور ان کے علاج میں ہچکچاہٹ کے باعث
بچے کو اپنی پوری زندگی اسی طرح متاثر رہ کر گزارنی پڑتی ہے۔ پاکستان میں ذہنی عدم
توازن سے بدنامی منسلک ہے۔ لوگ اس خوف سے ماہر نفسیات کے پاس جانے سے اجتناب کرتے ہیں
کہ اگر ان کے دوستوں اور اہل خانہ کو علم ہوگیا تو پھر بدنامی ہوگی اور وہ اکیلے رہ
جائیں گے اور انہیں ذہنی بیمار اور پاگل قرار دیا جائے گا۔ اس شعبے میں کام کرنے والے
غیر منافع بخش ادارے کاظم ٹرسٹ میں کلینیکل سائیکالوجسٹ عنبرین علی نے بتایا کہ جوائنٹ
فیملی میں رہنے والے والدین اور سرپرست اپنے بچوں کے دادا، نانا وغیرہ کو ٹیوشن لے
جانے کا کہہ کر اپنے بچوں کو تھراپی کے لیے لاتے ہیں۔ عنبرین کا کہنا ہے کہ متعدد اقسام
کے ذہنی عدم توازن کے خاتمے یا ان میں کمی لانے کے لیے ہم سب کو مل جل کر آگہی پھیلانی
چاہیے۔ پہلے ہمیں اپنے معاشرے میں پھیلے ان متعدد اقسام ذہنی عدم توازن کے عارضوں کو
قبول کرنا ہوگا، تب ہی ہم اس کے خلاف نبرد آزما ہوسکتے ہیں۔
اعدادوشمار کے مطابق پاکستان
میں صرف 2.49 فیصد افراد اے ڈی ایچ ڈی سے متاثر ہیں لیکن حقیقت میں متاثرہ افراد کی
تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اے ڈی ایچ ڈی اور لرننگ ڈس آرڈر
(سیکھنے میں مشکلات) کے مسائل صرف بچوں تک محدود ہیں کیونکہ بالغ افراد بھی ان ذہنی
عدم توازن کے عارضوں سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
اے ڈی ایچ ڈی دراصل جینیاتی
عدم توازن ہے۔ اس سے متاثرہ بچے میں یہ عارضہ 25 فیصد والدین کی طرف سے منتقل ہوتا
ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ان کے کسی بہن بھائی بھی اے ڈی ایچ ڈی سے متاثر ہو۔
حاملہ خواتین میں وٹامن ڈی کی کمی بھی اے ڈی ایچ ڈی کا سبب بنتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق
ان بچوں میں اے ڈی ایچ ڈی کا 34 فیصد زیادہ خطرہ ہوتا ہے جن کی ماﺅں میں دوران حمل وٹامن ڈی
کی کمی تھی بہ نسبت ان حاملہ خواتین کے جن کی پہلی سہ ماہی اور دوسری سہ ماہی میں وٹامن
ڈی کی سطح مناسب تھی۔
سر پر متعدد چوٹیں، قبل از
وقت پیدائش، والدین کی جانب سے الکحل یا تمباکو کا استعمال اور ماحول میں پارے جیسے
ہلاکت خیز مواد کی موجودگی بھی اے ڈی ایچ ڈی کا سبب بن سکتی ہے۔
اسی طرح، اے ڈی ایچ ڈی کے
بہت سے اسباب متاثرہ شخص کے دائرہ کار سے باہر ہیں، لیکن یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ
پاکستان جیسے ملک میں جہاں سورج کی روشنی باکثرت موجود ہے، وہاں بعض بیماریاں اور متعدد
اقسام کے ذہنی عدم توازن کے عارضے وٹامن ڈی کی کمی کے باعث ہوتے ہیں۔ یہ ناکامی اس
بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان میں ان بیماریوں میں کمی لانے کے لیے عمومی طرز زندگی اور
حالات میں بڑی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں سول سوسائٹی
اور حکام ذہنی عدم توازن کے عارضوں کی آگہی پیدا کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی
عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس شعبے میں چند گنے چنے ادارے
ہی کام کررہے ہیں۔ کراچی کی آبادی دوکروڑ سے متجاوز ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انسٹی
ٹیوٹ آف بیہیورل سائنسز اب ڈاؤ یونیورسٹی
آف ہیلتھ سائنسزکا حصہ ہے۔ یہ ذہنی صحت کا واحد نمایاں ادارہ ہے جہاں ذہنی بیماریوں
کا علاج ہوتا ہے۔ یہاں علاج کا دائرہ کار بہت زیادہ وسیع ہے جس کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ اے ڈی ایچ ڈی اور آٹزم جیسے عدم توازن کے عارضے اس کی ترجیحی فہرست
میں درج نہیں ہیں۔
ہم بطور قوم خوش نصیب ہیں
کیونکہ نجی شعبے میں متعدد فلاحی ادارے اور غیرمنافع بخش ادارے متعدد ذہنی عارضوں کے
علاج کے لیے کام کررہے ہیں۔ پاکستان میں اگر کاظم ٹرسٹ جیسے ادارے موجود نہ ہوں تو
ذہنی عدم توازن کے شکار لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد تاریک مستقبل کا سامنا کرنے پر
مجبور ہوگی۔
اے ڈی ایچ ڈی ایک ایسی کیفیت
ہے جس میں بچوں کے دماغ کے بعض حصے زیادہ بظاہر زیادہ چھوٹے محسوس ہوتے ہیں اور یا
ان کی بڑھوتری میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اے ڈی ایچ ڈی سے متاثرہ
بچے سست، پاگل یا بے وقوف ہوتے ہیں بلکہ اصل میں وہ ذہین اور تخلیقی صلاحیت سے مالامال
ہوتے ہیں اور اگر انہیں ابتدائی مرحلے میں مناسب رہنمائی فراہم کی جائے تو وہ معاشرے
کے کارآمد فرد بن سکتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں