وہی ہوا جس کا ڈر تھا

ڈاکٹر منصورنورانی

 جب ایک کھلاڑی کو ایک ایسے ملک کی باگ دوڑ سونپ دی جائے جس کے معاشی حالات پہلے ہی خراب اور دگرگوں ہوں تو وہ اس کا یقیناً یہی حال کرے گا، جو آج کل ہمارے ملک کا ہوگیا ہے۔ اول تو ذاتی خوبصورتی اور اسمارٹنس سے متاثر ہوکر کسی کو22 کروڑ افراد کے ملک کو سونپ نہیں دینا چاہیے۔ محض اس لیے کہ اُس نے پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے ورلڈ کپ جیتا تھا یا پھر اُس نے زکوة و خیرات سے ایک ہسپتال بنا ڈالا تھا۔ کرکٹ کا ورلڈ کپ بھی اُس نے اس وقت جیتا تھا جب اُسے ایک اچھی ٹیم بناکے دی گئی تھی۔ یہ کارنامہ صرف اکیلے شخص کا نہ تھا باقی کھلاڑیوں کا بھی تھا۔ قطع نظر اس کے کہ اُس ٹورنامنٹ میں کپتان کی اپنی کارکردگی کیسی تھی ہمیں اگر اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل نہ ہوتی اور باقی کھلاڑی بھی ویسا ہی کھیلتے جیسے کپتان کھیل رہا تھا تو ورلڈ کپ جیت جانا تو درکنار ہمارا شمار پہلی تین ٹیموں میں بھی نہ ہوتا۔ یہ ایک مفروضہ نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے کہ ہم ابتدا میں ہر میچ ہار رہے تھے لیکن ویسٹ انڈیز کے ایک میچ ہار جانے کی وجہ سے ہمیں واک اوور مل گیا اور ہم فائنل تک پہنچ گئے۔ یہ ساری صورتحال اللہ تعالیٰ کا کرم اور کروڑوں پاکستانیوں کی دعاؤں کا نتیجہ تھی۔

اِسی طرح شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر میں بھی اس ملک کے لاکھوں لوگوں کی امداد اور خیرات شامل ہے، اس کے بغیر بھی اس ہسپتال کی تعمیر ممکن نہ تھی۔ جس جس نے اس ہسپتال کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا خان صاحب نے اُن سب سے بعد ازاں بے وفائی کی۔ ہسپتال کیلئے زمین اور1992 میں پچاس کروڑ روپیہ جس نے فراہم کیا وہ آج ان کے دور میں سب سے زیادہ زیر عتاب ہے۔ جس ٹی وی چینل نے ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کیلئے تین تین گھنٹوں تک براہ راست نشریات کی سہولت فراہم کی وہ بھی خان صاحب کی زیادتیوں کا نشانہ بنا۔ یہ ہمارے خان صاحب کی فطرت اور خصلت کا نمایاں پہلو ہے۔ محترم جہانگیر ترین صاحب جنہوں نے خان صاحب کو اس مقام تک پہنچانے میں اپنی تمام تجوریاں کھول کر رکھ دی تھیں اور نہ دن دیکھا اور نہ رات ہر وقت اور ہر لمحہ بذات خود اپنے جہاز کے ساتھ موجود رہا وہ بھی آج کل اُن کی بے رخی کا شکار ہے۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے خان سے بے انتہا پیار کیا اور اُنہیں وزیراعظم کے عہدے تک پہنچانے میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا وہ سب آج اُن کے بے اعتنائی اور بے رخی سے بھی لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

بقول خان صاحب کہ میں 22 سالہ جدوجہد کے بعد اس مقام تک پہنچا ہوں، مگر اس جدوجہد میں اگر 2011 ءسے ملنے والی غیبی امداد کا عمل دخل نہ ہوتا تو وہ آج بھی اس ملک کی گلیوں، محلوں، جنگلوں اور بیانبانوں میں ہی بھٹک رہے ہوتے۔ اُنہیں 2011ءسے پہلے ہر الیکشن میں دو تین نشستوں سے زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ صاف ستھرے نیک اور صالح لوگوں کے ساتھ پارٹی بنانے کا دعویٰ کرنے والے شخص نے جب موقعہ ملا تو اپنے سارے اقوال زریں پر پانی پھیر دیا اور ایسا منفرد یوٹرن لیا جس کی مثال رہتی دنیا تک ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ آج اُن کے ارد گرد وہ سارے ہیرے مجتمع ہیں جنہیں وہ پہلے چور اور ڈاکو سمجھا کرتے تھے۔ الیکٹیبل کہہ کر اُنہوں نے وہ سارے لوگ قبول کر لیے جنہیں اپنی پرانی پارٹی میں کوئی وزارت ملنے کی آس و اُمید نہ تھی۔ یہ بات بڑے وثوق سے کی جاسکتی ہے کہ مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سارے لوگ اگر اپنی قیادت سے بے وفائی کر کے پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں تو خان صاحب اُنہیں دونوں ہاتھوں سے خوش آمدید کہتے ہوئے گلے سے لگا لیں گے۔

2014 ءمیں چار حلقوں میں مبینہ دھاندلی کو ایشو بنا کے اُنہوں نے کفن بردار علامہ طاہر القادری کے ساتھ اسلام آباد میں ڈی چوک پرجو دھرنا دیا اور کسی جانبدار امپائر کی انگلی کے انتظار میں 126دن گزار ے وہ دراصل اُن کے اصل جدوجہد تھی۔ اس کے علاوہ وہ 22 سالوں تک در در کی ٹھوکریں ہی کھاتے رہے۔ کبھی پرویز مشرف کو اپنا امام بنا کر اور کبھی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے پیچھے کھڑے ہوکر اپنا سیاسی قد بڑھاتے رہے اور جب کسی نادیدہ قوت کی مدد سے 2018 میں اقتدار مل گیا تو اُن کی ساری سیاسی قابلیت اور صلاحیت کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ پہلے کہا کرتے تھے کہ قیادت اچھی ہو تو نیچے چاہے لوگ کیسے بھی ہوں سب سدھر جاتے ہیں، لیکن اب وہ ایک اچھی ٹیم نہ ملنے کا بہانہ تراش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ ٹیم جو اُن کے معیار پر پورا نہیں اتری اُس کا انتخاب بھی تو خود خان صاحب نے ہی کیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کو وسیم اکرم پلس کے خطاب سے نوازنے والے شخص کی اپنی ذہانت اور قابلیت آج اسٹیک پر لگی ہوئی ہے۔ پچھلے تین سالوں میں کوئی کارکردگی نہ دکھانے والا اگلے دو برس میں کیا کوئی کارنامہ سرانجام دے پائے گا مگر وہ آج بھی اُس سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔

سابقہ حکومتوں کو کوستے کوستے تین برس بیت چکے لیکن اپنے نامہ اعمال میں ابھی تک سوائے ہو شربا مہنگائی کے کوئی ایسا کوئی کارنامہ درج نہیں کر پائے ہیں جس کو دکھا کے خان صاحب عوام کے سامنے سرخرو ہو پائیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ 70 سالو ں میں ملک پر 25 ارب ڈالر کا قرض لے لیا گیا لیکن اُن کے اپنے تین سالوں میں یہ قرض 43 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو چینی 70 سالوں میں 53 تک پہنچی تھی وہ اس تین سال کے قلیل عرصہ میں 115تک پہنچ گئی۔ کھانا پکانے کا تیل اور گھی 150 روپے فی کلو سے بڑھ کر365 تک پہنچ گیا۔ روپیہ اردگرد کے تمام ممالک کے مقابلے میں اتنا گر چکا ہے کہ ہم بنگلہ دیش والوں سے بھی نظریں نہیں ملا سکتے۔ اس پر طرہ یہ کہ عالمی اور خارجی سطح پر بھی کوئی ہماری بات نہیں سن رہا۔ ہم سفارتی تنہائی کے آخری درجوں تک پہنچ چکے ہیں۔ تمام مطالبوں کو من و عن تسلیم کرلینے کے بعد بھی IMFہماری سن رہا ہے اور نہ FATFٓ۔ اور ہم ہیں کہ اقتصادی پابندیوں کے ڈر اور خوف سے اپنے عوام پر مہنگائی اور گرانی کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کوئی طے شدہ حکمت عملی اور پروگرام نہیں ہے۔ سب کچھ حالات کے بدلتے دھارے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نہ کھل کر طالبان کی حمایت کرسکتے ہیں اور نہ مخالفت۔ جن کو ماضی قریب میں اپنا دشمن قرار دے رہے تھے آج اُن سے سمجھوتہ کرنے اور اُنہیں معاف کردینے کی باتیں کررہے ہیں۔ اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح بھی خود ہم ہی نے اختراع کی تھی۔ مگر آج یہ فرق اور اصطلاح اپنے ہاتھوں سے ختم کرنا بھی چاہتے ہیں۔ ملک اور قوم کو ایسے دلدل کے حوالے کر دیا گیا ہے کہ جہاں سے نکلنا اور نکالنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ ہم جتنا اُس میں سے نکلنے کی کوششیں کریں گے اُتنا ہی اس دلدل میں دھنستے جائیں گے۔ یہی وہ حالات ہیں جن کے اندیشوں کی وجہ سے ہم ایک ایسے شخص کو ملک کی باگ دوڑ سونپ دینے کے خلاف تھے جسے سیاست اور حکمرانی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ سارا ملک کرکٹ کے ایک میچ کی طرح چلایا جا رہا ہے جس میں ہار اور جیت کا ہر وقت احتمال رہتا ہے اور جہاں ہار جانے کو بھی شکست کی بجائے ایک نیا تجربہ سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔ 2023 میں ہمارے حکمراں یہی کہتے دکھائی دینگے کہ ہماری تیاری نہ تھی یا ہمیں اچھی ٹیم نہیں ملی۔

کوئی تبصرے نہیں