اگلی واری پھر زرداری

ڈاکٹر منصور نورانی

ذہانت اور عقلمندی میں آصف علی زرداری سے زیادہ قابل ہمارے یہاں شاید ہی کوئی سیاستداں ہو۔ اُن کی پلاننگ اور منصوبہ بندی کے ہم تو پہلے بھی قائل تھے اور آج بھی ہیں، وہ گرچہ عمر کے اس حصہ میں پہنچ چکے ہیں جہاں دماغی کمزوریاں اچھے سے اچھے انسان میں نسیان کا مرض پیدا کر دیتی ہیں لیکن ہمارے یہ موصوف بزرگ سیاسی بساط پر چالیں چلنے میں اب بھی سب کو مات دے دیتے ہیں، وہ ویسے تو بہت کم بولتے ہیں لیکن موقع پر تیر چلا کر اپنے مخالفوں کو دونوں شانے چت بھی کردیتے ہیں۔ لاہور کے حلقہ 133 میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن میں انہوں نے پی ٹی آئی کی غیر موجودگی کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے مسلم لیگ نون کے مقابلے میں اچھے خاصے ووٹ حاصل کرلیے، وہ بلاشبہ جیت تو نہ سکے لیکن مسلم لیگ نون کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے میں ضرور کامیاب ہوگئے ہیں۔ یہ حلقہ پچھلے کئی سالوں سے مسلم لیگ نون کا مضبوط ترین حلقہ سمجھا جا رہا تھا وہاں سے اتنے سارے ووٹ حاصل کر لینا پیپلز پارٹی کیلئے بے شک الیکشن جیت جانے کے مترادف ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کی قیادت سمیت سارے لوگ اسے اپنی بہت بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ انھیں اب یقین ہو چلا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں سارے پنجاب میں ایک بار پھر اپنی ساکھ بحال کرنے میں یقینا کامیاب اور سرخرو ہو جائیں گے۔ یہ زرداری صاحب کی سیاسی بصیرت اوردوراندیشی کا ہی مظہر ہے کہ وہ ابھی سے آئندہ انتخابات کی حکمت عملی تیار کر چکے ہیں، جبکہ باقی تمام سیاسی پارٹیاں ابھی تک اپنے اندرونی معاملات ہی درست نہیں کر پائی ہیں۔

جناب زرداری صاحب نے 2023 کے الیکشن کی حکمت عملی ایسی ترتیب دی ہے کہ وقت آنے پر سب حیران و ششدر رہ جائیں گے۔ اُنہوں نے جہاں اپنے معاملات ملک کی مقتدر قوتوں کے ساتھ درست کر لیے ہیں وہاں کچھ مختلف سیاسی جماعتوں اور ہم خیال گروپوں سے بھی درپردہ اتحاد کر لیا ہے جو مفاہمتی فارمولے کے تحت ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی اگلی حکومت میں ممکنہ طور پر شامل ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جہانگیر ترین کا انداز سیاست بہت حد تک آصف علی زرداری سے ملتا جلتا ہے۔ وہ بھی یاروں کے یار ہیں اور مالی معاملات میں بہت بڑے سخی اور دلیر واقع ہوئے ہیں۔ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے اس مقام پر فائز کروانے میں اُن کا یہی انداز بہت مددگار اور کار فرما رہا تھا۔ جس طرح 2018 میں سینیٹ کے انتخابات میں ہم نے ایک شخص ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو کو جو زرداری صاحب کے جیل کے دنوں کے قریبی ساتھی اور دوست رہے تھے بلوچستان اور کے پی کے کے اراکین اسمبلی کے گھروں کے چکر کاٹتے ہوئے دیکھا تھا بالکل اُسی طرح وفاق میں عام انتخابات کے فوراً بعد حکومت بنانے کیلئے جہانگیر ترین کو بھی اپنا جہاز لیکر بہت سے آزاد ارکان پارلیمنٹ کو گھیر گھیر کر لاتے ہوئے دیکھا تھا۔ جہانگیر ترین جنوبی پنجاب میں سیاسی طور پر اچھا خاصا اثر رکھتے ہیں۔ اُن کی اس صلاحیت کو زرداری صاحب سے زیادہ کون جان سکتا ہے، انہیں جہانگیر ترین کی اہمیت و افادیت کاپورا ادراک ہے۔ حسن اتفاق سے آصف علی زرداری اور جہانگیر ترین کے مالی معاملات بھی ایک ہی طرح کے ہیں۔ دونوں پر اللہ تعالیٰ کی عنایتوں کا بڑا فضل رہا ہے۔ اور دونوں ہی حادثاتی یا کرشماتی طور پر اچانک بہت بڑی جاگیر اور امارت کے مالک و مختار بھی بنا دیے گئے ہیں۔ وہ ایسے مقدر کے سکندر واقع ہوئے ہیں تو جو اپنی دولت کو سیاسی مستحقین میں تقسیم کرنے کے فن سے بہت اچھی طرح واقف بھی ہیں۔ اس لئے دونوں کا یہ انداز سیاست ایک دوسرے کو قریب لانے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب وفاق میں حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ (ق) ہمیشہ سے اُن کی دوست اور معاون ثابت ہوتی رہی ہے۔ اس پارٹی کی طرف سے زرداری صاحب کو کبھی بھی کوئی اندیشہ یا فکر لاحق نہیں رہی ہے۔ وہ اُن کیلئے متحدہ قومی موومنٹ سے بھی زیادہ قابل اعتماد دوست کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ ایم کیو ایم تو اکثر اوقات بدک بھی جایا کرتی ہے اور حکومت سے علیحدہ ہوجانے کا ڈرامہ بھی رچاتی رہتی ہے لیکن الحمد اللہ قاف لیگ ایسا ہرگز نہیں کرتی ہے، وہ جس کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتی ہے آخر دم تک ساتھ نبھاتی رہتی ہے بشرطیکہ کہیں سے کوئی اشارہ نہ ملے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی پریڈ کی تاریخ و اہمیت

مذکورہ بالا بدلتی صورتحال میں یہ کہنا اب کوئی مشکل نہیں رہا کہ اسٹیبلشمنٹ اگر نون لیگ سے یونہی ناراض اور خفا رہی تو اس کیلئے اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی تیاریاں بتا رہی ہیں کہ اگلی واری پھر زرداری کا نعرہ اب حقیقت کا روپ دھارتا دکھائی دینے لگا ہے۔ ویسے بھی باریوں کے اعتبار سے اب باری پیپلز پارٹی ہی کی ہے۔ جس طرح بقول خان صاحب کے پہلے صرف دو پارٹیاں ہی باریاں لگایا کرتی تھیں لیکن اب پی ٹی آئی بھی اس میوزیکل چیئر کے مقابلے میں ایک کھلاڑی بن چکی ہے۔ کارکردگی کے لحاظ سے پی ٹی آئی کا اگلے الیکشن میں جیت جانا تقریباً ناممکن ہوچکاہے،جبکہ مسلم لیگ نون زبردست ووٹ بینک رکھنے کے باوجود اپنی مزاہمتی پالیسی کی وجہ سے انتخابات جیت جانے کی پوزیشن میں فی الحال دکھائی نہیں دیتی۔ لہٰذا قرعہ پیپلز پارٹی کے نام نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔ صوبہ سندھ سے تو اسی فیصد نشستیں لے جانا پیپلز پارٹی کیلئے کوئی مشکل ہی نہیں۔ اسی طرح اُسے اب کے پی کے اور بلوچستان سے بھی کئی نشستیں حاصل کرلینے کی قوی اُمید ہے، وہ اگر تیس چالیس سیٹیں پنجاب سے بھی حاصل کر لے تو کوئی اُسے وفاق میں حکومت بنانے سے روک نہیں سکتا۔ جناب زرداری صاحب انہی امکانات پر بڑی تندہی سے کام کررہے ہیں۔ اُن کی شاطرانہ سوچ اور حکمت عملی کا کوئی متبادل نہیں ہے، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاست کا کھیل کس طرح کھیلا جاتا ہے۔ جوڑ توڑ کس طرح کی جاتی ہے اور ضرورت پڑنے پر مال و دولت کے خزانے کس طرح لٹائے جاتے ہیں۔ جمہوریت کو اپنے تابع کس طرح بنایا جاتا ہے اور پارلیمنٹ میں عددی کمی کو کیسے پورا کیا جاتا ہے۔ یہ ساری فنکاری اور ہشیاری ہر شخص کو نہیں آتی ۔یہ صرف چند لوگوں کاہی خاصہ ہوا کرتا ہے اور آصف علی زرداری اُن سے ایک ہیں۔ جیل کے سلاخوں سے نکل کر سیدھا ایوان اقتدار میں پہنچ جانا بھی زرداری صاحب جیسے با ہنر شخص کا کمال ہے۔ محترمہ کی شہادت کو پارٹی کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان کے طور پر قبول کرتے ہوئے ہمت ہار جانے کی بجائے اُسے الیکشن میں کامیابی کیلئے استعمال کر لینا بھی اُن کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور پھر پرویز مشرف کے خلاف مواخذہ کی تحریک لاکر انھیں زبردستی ازخود استعفیٰ پر مجبور کر کے خود کو ملک کے سب سے اعلیٰ منصب پر فائز کروا دینا بھی کسی عام سیاستدان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ سب ہمارے ذہین و فطین، لائق اور زیرک سیاستداں جناب آصف علی زرداری صاحب ہی کا کمال ہے۔

1 تبصرہ: