غزل
ڈاکٹر شاہد صدیقی |
غزل |
وہ میری عرق عرق کمائی لے گیا |
نابینا تھا جبھی تو بینائی لے گیا |
صراحی مضمحل پیالہ چھلک پڑا |
کتاب چھین کر روشنائی لے گیا |
بھوک سے لپٹے ہوئے میرے لوگ |
حادثہ ایسا قوت گویائی لے گیا |
فریب ایسا سیاست کے صحرا میں |
مرض پھیلا کر ہر طرف دوائی لے گیا |
مرمریں جسم پر وہ گہرا آنچل |
سرکتے سرکتے توانائی لے گیا |
ماتھے پر شکن لکیریں گواہ ہیں |
بچی کچی شان کبریائی لے گیا |
سطحی سوچ کا حامل جو دکھوں |
تجربات ہی میری گہرائی لے گیا |
کوئی تبصرے نہیں