واٹر بورڈ افسران کی ملی بھگت سے پی ایس 104 کا پانی چوری
کراچی: صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی ایس 104 کا پانی واٹر بورڈ افسران کی ملی بھگت سے چوری کیا جانے لگا، جس کی وجہ سے محمود آباد، نرسری، چنیسر گوٹھ، منظور کالونی، جونیجو ٹاؤن اور اختر کالونی میں پانی کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔
واٹر بورڈ کی جانب سے ضلع
ایسٹ میں سپرٹنڈنٹ انجینئر اور ایکسین کا دہرا چارج نیب زدہ افسر کو دے دیا گیا ہے،
سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزری کرتے ہوئے دو چارج ایک ہی افسر کو دیے گئے ہیں، سیاسی
اثر و رسوخ کی وجہ سے گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک ہی علاقے میں ایکسین تعینات ہے۔
تفصیلات کے مطابق واٹر بورڈ
کے افسر سید مظہر حسین، سپرٹنڈنٹ انجینئر و ایکسین سمیت عارف ستار، ندیم الحسن کی ملی
بھگت سے پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی اور ان کے بھائی فرحان غنی کو گمراہ کن رپورٹ
دے رہے ہیں کہ ہمیں بلک سپلائی کے افسران کی جانب سے پانی کا مطلوبہ لیول فراہم نہیں
کیا جاتا ہے، جس کے باعث سیاسی دباؤ کی وجہ سے واٹر بورڈ بلک سپلائی کے افسر اظفر پلیجو کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا ہے۔
بلک سپلائی کے افسران کو
ہٹانے کے باوجود بھی پی ایس 104 کے حلقے میں پانی کی سپلائی تاحال بحال نہیں ہو سکی
ہے، جس کی وجہ سے محمود آباد، ہل ٹاؤن، چنیسر گوٹھ، اختر کالونی، اعظم بستی، منظور
کالونی، جونیجو ٹاؤن، کراچی ایڈمن سوسائٹی، دادا بھائی ٹاؤن سمیت یونین کونسل ایک سے
لے کر یونین کونسل 6 تک کے مکین احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، منظور کالونی، پی
ای سی ایچ ایس کے بعض مکینوں نے محتسب اعلیٰ اور عدالت سے بھی رجوع کر لیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ سید مظہر
حسین نے حال ہی میں ایل ایس آر کی ایک موٹر خرا ب ہونے کے بعد اس موٹر میں لیپئریل
لگانے کے بعد اسی کو دوبارہ لگا کر نئی موٹر کا بل وصول کر لیا ہے، سید مظہر حسین طویل
عرصہ ورکشاپ میں تعینات رہے ہیں جس کی وجہ سے اب انہوں نے دنبہ گوٹھ میں السید کے نام
سے اپنا ایک فارم ہاؤس بنا رکھا ہے، جس میں باقاعدہ کیٹل فارم بھی ہے، جہاں سے پانی
فروخت کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے اور سرکاری مشینری لگا کر باقاعدہ ورکشاپ کا کام
بھی کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ اس صورت حال
سے قبل واٹر بورڈ کی جانب سے منظور کالونی، محمود آباد سمیت مذکورہ علاقوں کے لیے صرف
ہفتہ، پیر اور منگل کو 9 بجے سے ایک بجے تک پانی کا ناغہ ہوتا تھا، اس کے علاوہ ہفتہ
بھر پانی کی سپلائی جاری رہتی تھی، جس کے بعد ہفتہ، پیر اور منگل کو صبح 10 سے رات
ایک بجے تک ناغہ کر دیا گیا ہے۔ باقی کے دنوں میں پانی دن کو دینے کی بجائے رات کو
تھوڑی دیر کے لیے سپلائی کیا جاتا ہے۔
سپرٹنڈنٹ انجینئر و ایکسین
کی وجہ سے 48 انچ قطر کی لائن کے برابر میں چلنے والی 24 کی لائن سے جمشید ٹاؤن کا
پانی کاٹ کر گلشن ٹاؤن کو سپلائی کیا جاتا ہے جہاں بڑے بڑے شاپنگ پلازہ، بڑی بلڈنگز
کے مالکان سے ندیم الحسن ماہانہ خطیر رقم جمع کرتا ہے۔
دوسری جانب عارف ستار محمود
آباد اور منظور کالونی کا پانی کاٹ کر کراچی ایڈمن کو فراہم کرتا ہے جہاں میٹھا پانی
ضائع ہوتا رہتا ہے۔ جب کہ ایکسین اور دیگر اسٹاف پانی کا ناغہ ہونے کا پروپیگنڈا کرتے
ہیں، تاہم ناغہ سسٹم کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ ندیم الحسن اور عارف
ستار دونوں ماہانہ ایکسین کو حصہ فراہم کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔
ایکسین ضلع ایسٹ اور ان کے
ماتحت افسران کی وجہ سے اختر کالونی، محمود آباد، چنیسر گوٹھ کا پانی دیگر علاقوں کے
علاوہ قیوم آباد اور ڈیفنس ویو سے متصل نالے والے روڈ کے ذریعے سپلائی کیا جا رہا ہے،
جہاں پردرجنوں غیر قانونی منی ہائیڈرنٹس چل رہے ہیں جن پر اینٹی تھیفٹ سیل کی جانب
سے صرف ایک بار نمائشی کارروائی کے علاوہ تاحال کوئی کارروائی نہیں کی جا سکی۔
واٹر بورڈ کے ایگزیکٹیو انجینئرسید
مظہر حسین کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ انہوں نے اربوں روپے کے اثاثے بنا لیے ہیں،
گولیمار میں ان کے متعد د مکانات کرائے پر ہیں، جب کہ وہ اسٹیٹ کا کاروبار بھی کرتے
ہیں، کراچی سے حیدر آباد تک ان کا نمکو کا بھی وسیع پیمانے پر کاروبار ہے، حال ہی میں
بیرون ملک میں ایک گھر خریدنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
سید مظہر حسین طویل عرصہ
تک ای اینڈ ایم میں پمپنگ کے انچارج تعینات رہے جن کے ماتحت شہر کے لگ بھگ ڈیڑھ سو
سے زائد پمپنگ اسٹیشن کی الیکٹریکل اور مکینیکل ذمہ داری تھی، جب کہ انہیں اس کے ساتھ
ساتھ سیور کلینگ مشینوں کا بھی چارج دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ سابق سیکریٹری
بلدیات کی جانب سے واٹر بورڈ حکام کو لیٹر نمبر No.KWSB/D.MD/HDR&A/363 ارسال کیا گیا تھا جس میں
کہا گیا تھا کہ جن افسران کا ریکارڈ ابھی تک موصول نہیں ہوا ہے ان کا ریکارڈ مہیا کیا
جائے، ریکارڈ مہیا نہ کرنے والے افسران میں اس وقت گریڈ 18 کے افسر جن میں علاقہ ایکسین
ہیں اور اس وقت کے گریڈ 17 کے افسر سید مظہر حسین کا نام بھی شامل تھا، جن کے خلاف
ای اینڈ ڈی رولز 1987 کے تحت کارروائی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جنہوں نے سابق ڈی ایم
ڈی ایچ آر شکیل احمد کے دور میں غیر قانونی ترقیاں حاصل کی تھیں۔
ادھر معلوم ہوا ہے کہ پی
ایس 104میں پانی کی کمی اور زیر زمین ٹینک بنا کر پانی کی چوری کرنے والوں کے خلاف
علاقہ مکینوں نے احتجاج بھی کیا تھا جنہوں نے براہ راست پیپلز پارٹی اور متعلقہ ایم
پی اے کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے الزامات بھی عائد کیے تھے جب کہ بعض سماجی رہنماؤں
کی جانب سے اس حوالے سے محتسب اور عدالت سے بھی رجوع کیا گیا تھا، معلوم ہو اہے کہ
بعض رہنماؤں کی جانب سے اس حوالے سے متعلقہ افسران کی تفصیلات جمع کرکے اب نیب کو بھی
فراہم کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ منظورکالونی عوامی
چوک سیکٹر H کے
بعض مکینو ں کی جانب سے یونائیٹڈ ہیومن رائٹس کونسل پاکستان برائے واٹر اینڈ سیوریج
بورڈ کے تحت عدالت سے رجوع کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ علاقے میں پانی کافی وقت
سے ناپید ہے، جس کی وجہ سے اہل علاقہ، بچے اور بوڑھے مرد و خواتین سب ہی تکلیف سے دو
چار ہیں، کونسل کی جانب سے آرٹیکل 9 کا حوالہ دے کر عدالت کو بتایا گیا تھا کہ پانی
کی مسلسل کمی انسانی حقوق کی صریحاً و بنیادی خلاف ورزی ہے۔ جس کی سماعت ساؤتھ کورٹ
نمبر 2 میں تھی، جس میں واٹر بورڈ کے افسران پیش ہی نہیں ہوئے۔ جس کے بعد عدالت کی
جانب سے واٹر بورڈ کے متعلقہ افسران کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کیے گئے تھے، تاہم
واٹر بورڈ کے ایکسین 23 اپریل کو عدالت میں پیش ہوئے، عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ
23 مئی سے قبل علاقے کو پانی کی سپلائی مکمل بحال کر دی جائے گی، تاہم اس کے باوجود
بھی تاحال غیر اعلانیہ و غیر منطقی ناغہ سسٹم جاری رکھا ہوا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں