رشتہ ہر ایک توڑ دیا ہے خوشی کے ساتھ |
"الفت سی ہوگئی ہے غمِ زندگی کے ساتھ" |
کہتے تھے جی نہ پائیں گے تیرے بغیر ہم |
پر جی رہے ہیں آ ج بھی تیری کمی کے ساتھ |
ایسا بھی کیا قصور کوئی ہم سے ہوگیا |
ملتا تو ہے وہ ہم سے مگر بے رخی کے ساتھ |
الزام جس قدر بھی تھے ناحق وہ دھر دیے |
برسوں زمانہ کھیلا میری سادگی کے ساتھ |
پردے میں دوستی کے ملے ہیں فریب پر |
ملتے رہےخلوص سے پھر بھی سبھی کے ساتھ |
مدت سے جن کو رکھا تھا روبی سنبھال کے |
آ نسو چھلک پڑے وہ اچانک ہنسی کے ساتھ |
سنتا ہے وہ سبھی کی جو دل سے پکاریے |
سر کو جھکا کے دیکھ کبھی عاجزی کے ساتھ |
|
|
کوئی تبصرے نہیں