دو کتابیں ’قطرہ قطرہ زندگی‘ اور ’نسیم انجم کی ادبی خدمات‘

تحریر: ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

 ادبی دنیا میں نسیم انجم کا نام معروف ہی نہیں بلکہ معتبر بھی ہے۔ عرصہ دراز سے قلم و قرطاس سے وابستہ ہیں۔ مختلف موضوعات پر حق اور سچ سے جڑے رہتے ہوئے ادب کی خدمات میں مصروف ہیں۔ شعبہ صحافت و تدریس سے وابستہ، افسانہ نگار، ناول نگار، تنقید نگار، مترجم اور کالم نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ کراچی کی ادبی محفلوں میں عزت و احترام سے بلائی جاتی ہیں جہاں وہ متعلقہ موضوع پر مدلل اور علمی گفتگو کرتی ہیں۔ دو سال قبل انھوں نے اپنے کالموں کا مجموعہ ’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے‘ عنایت کیا تھا جس پر صلاحیت بھر کچھ لکھ چکا ہوں۔ حال ہی میں انھوں نے اپنی دو کتابیں ”نسیم انجم کی ادبی خدمات“ اور ’قطرہ قطرہ زندگی (افسانے)‘ عنایت فرمائیں۔ اول الذکر تصنیف میں فرزانہ کوثر نے نسیم انجم کی ادبی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ موضوع فرزانہ کوثر کے ایم فل کے مقالے کا ہے۔ محققہ نے اپنا یہ مقالہ جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو کے معروف و محترم استاد، صدر شعبہ میرے بڑے مہربان دوست، ساتھی ڈاکٹر خالد ندیم کی نگرانی میں مکمل کیا۔ اس مقالہ کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ ڈاکٹر خالد ندیم کی نگرانی میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ڈاکٹر خالد ندیم صاحب سے میری قربت رہی، اس قربت کا تمام تر سہرا پروفیسر ڈاکٹر طاہر تونسوی مرحوم کو جاتا ہے۔ یہ بات ہے 2011 کی میں جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے ایسوسی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی شعبہ اردو کے صدر شعبہ اور ڈاکٹر خالد ندیم کے استاد اور ساتھی تھے۔ تونسوی صاحب کا بہت ادب و احترام کیا کرتے، میں جامعہ سرگودھا کے ٹیچرز ہاسٹل کے کمرہ نمبر 5 کا مکین تھا اور طاہر تونسوی صاحب کمرہ نمبر 2 میں مکین تھے۔ تونسوی صاحب ہمارے ہم مزاج تھے چنانچہ ہم دونوں ’ہم نوالہ و ہم پیالہ‘ تھے، گرمیوں کی شامیں باہر خوبصورت وسیع سر سبز میدان کے سامنے اور سردیوں کی شامیں میرے کمرہ میں گزرا کرتی تھیں۔ رات گئے تک مختلف موضوعات پر گفتگو، فیض کا کلام سننا معمول تھا۔ ڈاکٹر خالد ندیم ٹیچرز ہاسٹل تونسوی صاحب کے پاس آتے تو ان سے ہماری بھی ملاقاتوں کا سلسلہ رفتہ رفتہ بڑھتا گیا، تونسوی صاحب میرے کمرے میں ہوتے تو خالد ندیم وہیں آ جاتے۔ کیا خوبصورت اور حسین لمحات ہوا کرتے تھے، ڈاکٹر خالد ندیم کے لائے ہوئے کھانے کیا مزیدار ہوا کرتے تھے آج بھی یاد آتے ہیں۔



 نسیم انجم کی ثانی الذکر کتاب ان کے افسانوں کا مجموعہ ’قطرہ قطرہ زندگی‘ ہے۔ ان کی دیگر تصانیف میں افسانوں میں دھوپ چھاؤں، آج کا انسان، گلاب فن اور دوسرے افسانے۔ جب کہ ناولوں میں کائنات، نرک، پتوار، آہٹ، سرِبازار رقصاں، تنقیدی ادب میں ’خاک میں صورتیں‘ اور اردو شاعری میں ’تصور زن‘، فضا اعظمی کے ”فلسفہ خوشی“ کا تجزیاتی مطالعہ شامل ہیں، ان کے ناول اور افسانوں کے مجموعے گلاب فن اور دوسرے افسانے کا سندھی زبان میں ترجمہ ’ہک وک جو سفر‘ کے عنوان سے ہوچکا ہے۔ اسی طرح ان کے ناول نرک کا انگریزی ترجمہ off the Pair daizeکے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے۔

 نسیم انجم کے حوالے سے ایک قابل تعریف عمل ان پر جامعات میں ایم اے، ایم ایس، ایم فل کی سطح پر تحقیق اور ان کی شخصیت اور مختلف تحریروں پر مقالات کا لکھا جانا ہے۔ کسی بھی علمی و ادبی شخصیت کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ وہ خود تو لکھتا ہی ہے لیکن اس کی شخصیت اور تحریر کو مختلف زاویوں سے تحقیق کا موضوع بنایا جائے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کا انحصار تحقیق پر عمل پیرا ہوئے بغیر ممکن نہیں، جس قوم نے اس میدان میں جس قدر جدوجہد کی اسے اتنی ہی ترقی و عروج حاصل ہوا۔ تحقیق انسانی زندگی کے تمام تر شعبوں میں بہتر سے بہتر کی راہ دکھاتی ہے۔ معاشرہ میں زندگی بسر کرنے والے جن مسائل اور مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں تحقیق انھی مسائل اور مشکلات کا حل نکالنے کی عملی قوت رکھتی ہے۔ یہ مسائل اور مشکلات معاشرتی، سیاسی، تعلیمی، سائنسی، تجارتی، حکومتی منصوبہ بندی سے متعلق بھی ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی ایسے موضوع پر جس پر مواد پہلے سے موجود ہو، اس پر لکھا جا چکا ہو یا کسی بھی موضوع پر مختلف انداز سے اظہار خیال کر دینا تحقیق نہیں بلکہ تحقیق نام ہے نئی دریافت، نئی ایجاد کا۔ کسی بھی مصنف کی شخصیت، علمی، ادبی، تحقیقی اور تصنیفی کاوشوں کو تحقیق کا موضوع بنایا جانا، متعلقہ مصنف کی علمی و ادبی کاوشوں کی اہمیت کا پتا دیتا ہے۔ اس اعتبار سے نسیم انجم صاحبہ قابل مبارک باد ہیں کے مختلف جامعات میں ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر مقالات اردو ادب کی بھاری بھرکم، معروف اور معتبر علمی ادبی شخصیات کی نگرانی میں لکھے گئے۔



 پیش نظر تصنیف ’نسیم انجم کی ادبی خدمات‘ پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلا باب سوانح اور شخصیت کا احاطہ کرتا ہے۔ دوسرا باب نسیم انجم کی افسانہ نگاری سے متعلق ہے جس میں ان کے مختلف افسانوں کے مجموعوں کی تفصیل بیان کی گئی ہے، تیسرا باب نسیم انجم کی ناول نگاری کا احاطہ کرتا ہے جب کہ چوتھا باب متفرق ادبی خدمات پر مشتمل ہے اور پانچویں اور آخری باب میں اردو ادب میں نسیم انجم کے مقام و مرتبہ کا جائزہ لیا گیا ہے۔ آخر میں حوالہ جات، کتابیات، مصادر و منابع پر کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ کتاب الحمد پبلی کیشنز، کراچی نے شائع کی ہے۔ اردو ادب میں اچھا اضافہ ہے۔

 قطرہ قطرہ زندگی‘ نسیم انجم کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ اور مجموعی طور پر یہ ان کی بارہویں کتاب ہے۔ کتاب ہٰذا کے بارے میں مصنفہ نے لکھا کہ ’کتاب میں شامل چند افسانوں کے علاوہ تمام افسانے سہ ماہی ”اجمال“ میں شائع ہوئے‘۔ اکرم کنجاہی صاحب نے ’زندگی آمیز افسانے' کے عنوان سے اظہاریہ تحریر فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ”ان کے افسانے فنی قدروں کے ہی حامل نہیں بلکہ انھوں نے اپنے کردار اور موضوعات اپنے عہد اور گرد و پیش کی زندگی سے کشید کیے ہیں جو حقیقت کش، زندگی آمیز ہیں اور ہمارے عہد پر مبنی بر حقائق دستاویزات ہیں“۔ افسانہ کے جو مجموعے اب تک منظر عام پر آ چکے ان کے مطالعہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نسیم انجم کا بنیادی مقصد صرف اور صرف معاشرہ کی اصلاح ہے۔ ان کی ہر تحریر میں اخلاقیات کا درس ملتا ہے۔ پیش نظر کتاب کا پہلا افسانہ ’قطرہ قطرہ زندگی‘ ایک نیم جاں شخص کی بپتا ہے۔ وہ اپنی اس کیفیت میں اپنے سے متعلق احباب کی گفتگو سن رہا ہے۔ اولاد مال و اسباب کا بٹوارہ کر رہی تھی اور لاش گھر میں پڑی تھی۔ افسانہ ’ربڑ کی گیند‘ میں ایک عورت کی کہانی ہے جس میں وہ عورت کو ربڑ کی گیند اور چیونگم کی ٹکیا قرار دیتی ہے۔ افسانہ ’شہرِ مقتل‘ کا بنیادی کردار فیتے کے گرد گھومتا ہے جس کا اصل نام فیروز الدین تھا۔ اسے تشدد کر کے مارا گیا، اس پر ظلم کیا گیا اور وہ اپنی زندگی کی بازی ہار گیا۔ افسانہ ’قتل کی رات‘ روزمرہ ہونے والے واقعات پر مبنی ہے جس میں ایک لڑکی اپنی پسند سے نکاح کر لیتی ہے۔ اس قسم کے مسائل اور واقعات ان دنوں میڈیا پر عام دیکھے جارہے ہیں۔ افسانہ ’انوکھی تجارت‘ عالمی وبا کورونا کے تناظر میں تحریر کیا گیا۔ اسی طرح دیگر افسانے جن میں جنگل میں منگل، اندھیری منزل، شہنائی کا دکھ، قافلہ حسینی، حشر کا دن، شگاف، سوئے مقتل، لذتِ غم، مستانہ غائب ہے، قوم موسیٰ اور ہم، خنزیر کھانے والا، اور گنتی بدل گئی، سجن ان دیکھا، بدلتے منظر، قتل کی رات، کیا وہ مر گئی، قطار میں کھڑی عورت، مماثلت، خالی قبر، کہانی کا آخری موڑ اور تعاقب ایسے افسانے ہیں جن میں ناول نگار نے ہر کہانی میں جدت اور انفرادیت کے ساتھ کہانی کو دلچسپ بنایا ہے۔ ان کے افسانے اتنی جدت اور حساسیت لیے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والے کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں