”مولاجٹ“ کی ہیروئین چکوری تھی، فلمی دنیا کے چند یادگار واقعات
آپ کے یو ٹیوب چینل ”ٹیلنٹ“
پرصحافی وقلمکار ساجد علی ساجد کا انٹرویو دیکھا اور سنا ”بے ہوشی وہ بھی گلوکارہ مہ
ناز کے گھر“ خیر اس لحاظ سے میں تو بہت خوش قسمت ہوں کہ ہم جوانی میں نور جہاں کے بنگلہ
واقعہ گلبرگ جاتے رہے اور ان کی بیٹی ظل ہما، جو بعد ازاں گلوکارہ بن گئی تھی اور
نور جہاں کے داماد عقیل بٹ سے دوستی رہی اور ہمیشہ ظل ہما کو شکایت رہی کہ فلاں دن
واقعہ گلبرگ سے گزر رہی تھی۔”میں نے سلام کیا اور آپ نے جواب نہیں دیا تھا“ اور پھر
پوچھنا ”کہ کب؟“ تو میں نے جواب دینا کہ ”وہ میں نہیں تھا بلکہ وہ ہمارے کزن تاثیر
یوسف مخدوم تھے ، انھوں نے جواب نہیں دیا۔“ اس وقت وہ اسکوٹر پرگلبرگ سے دفتر جاتے
تھے اور اس وقت میرے پاس بھی ویسپا اسکوٹر تھا اور وحید مراد کے گھر بھی آمدورفت تھی
اور فلم ”مولا جٹ“ کی ہیروئین چکوری سے واقفیت اس وقت کی ہے، جب وہ ”مولا جٹ“ کی ہیروئین
نہیں تھیں۔ سید شوکت حسین رضوی مرحوم کے حوالے سے یاد آیا انھوں نے اپنی سابقہ بیگم
نور جہاں کے بارے میں ایک کتاب وہ بھی گلے شکوے اور مابدولت نے انکار کردیا، ظل ہما
ان کی چہیتی بیٹی تھیں اور ہم نے برا بن جانا تھا۔ وہ چکوری جو ”مولا جٹ“ کی ہیروئین
بنی تھیں لیکن جس وقت ان سے ملاقات ہوئی اس ملاقات قیوم نذر جو ریزیڈنٹ ڈائریکٹر نیشنل
سینٹر لاہور میں ان کے دفتر واقع الفلاح بلڈنگ، چیئرنگ کراس میں ملاقات ہوئی تھی اور
اس ملاقات میں فلمسٹار نور جہاں، چکوری کی خالہ تھیں اور بعد ازاں مجھے انھوں نے ایک
پر تکلف دعوت پر مدعو کیا۔ میں نے اس دعوت سے منع بھی کیا لیکن ان کے اصرار پر مجھے
جانا پڑا اور ان کی رہائش سمن آباد کے دامن میں واقع تھی اور چکوری نے اس فلم میں بہت
جاندار کردار اور وہ گولڈن جوبلی سے بھی کئی برسوں تک وہ سینماؤں کی زینت بنی۔ اس فلم
میں سلطان راہی، مصطفےٰ قریشی۔کیفی وغیرہ وغیرہ ۔ اس فلم نے اس وقت لاکھوں کا بزنس
کیا تھا۔
1971سے 1977 تک ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت
تھی اور ان کے دور حکومت میں امام کعبہ تشریف لائے اور بادشاہی مسجد میں نماز کی امامت
کرائی تو لاہوری اور حکومت کے اعلیٰ دیگر لوگوں کا ہجوم صحافی دوستوں عزیزوں نے کہا
کہ لازمی طور شرکت کرنی ہے۔ ہمارے عزیز بھائی سید غلام مصطفےٰ ہاشمی اور دیگر دوستوں
کے ساتھ ہم بھی پہنچ گئے تو وہاں پر غلام فرید صابری قوال اور ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر
اور ریجنل ڈائریکٹر نام ذہن میں نہیں آرہا ہے میں تو خاص طور پر تمام شناخت کے کارڈ
لے کر نہیں آیا کیونکہ ایسے عظیم الشان لوگوں کے ہجوم میں پیسوں کے علاوہ کچھ نہیں
بھی نہیں بچتا اور مشکل سے ڈیڑھ سو یا اس سے بھی کم رقم جیب میں ڈال کر نوابوں کی طرح
چلے ۔ مقبول صابری نے نماز کے بعد کہا کہ ”انگلینڈ میں ایک آرٹسٹ نے میرے ساتھ گایا
ہے اس سے ملنا ہے اور وہ اسد امانت علی خان کی شاگرد تھی۔ “ میں نے کہا کہ ” اب نمازکے
بعد وہاں جانا ہے میں نے سب سے پہلے نماز کے بعد وہاں اور ساتھیوں نے کہا کہ جانا تو
پڑے گا خیر نہ چاہتے ہوئے بھی ہم مقبول صابری کے ساتھ اسد امانت علی خان کے گھر جاکر
اسے بلایا اور وہ ہمارے ساتھ چل پڑے۔ میں نے پوچھا کہ ”جانا کہاں ہے؟“ کہنے لگے کہ
”شمشاد بائی کے کوٹھے پر“ مصطفےٰ ہاشمی نے مجھے گھورا۔ اسد امانت علی خان کے ساتھ پیدل
چلتے ہوئے ہم وہاں پہنچ گئے اور اس وقت مجرا ہو رہا تھا اور دو معززین مجرا دیکھ رہے
تھے۔ شمشاد بائی نے ہمیں خوش آمدید کہتے ہوئے ہمارے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر نہایت ادب
سے تشریف رکھنے کا کہا، بالکل اسی طرح سواگت کیا۔ میں نے غلام فرید صابری اور سید غلام
مصطفےٰ ہاشمی اور اسد امانت علی خان سے تعارف کرایا اور جو صاحب مجرا اہتمام سے انجوائے
کر رہے تھے اور وہ بھی موجود، اسی دوران سید غلام مصطفےٰ ہاشمی نے میری توجہ ایک صاحب
جو حلیے سے خان ہمیں گھور رہے تھے کیونکہ ہمارے حلیے ایسے تھے اور جواں سال ان کی سمجھ
میں نہیں آیا کہ یہ کون ہیں اور جو رنگ میں بھنگ ڈال کر بیٹھے ہیں تو میں نے شمشاد
بائی کی توجہ دلائی کہ خان صاحب گھور رہے ہیں ان کے ساتھ بانو ساڑھی ہاؤس کے ملک سیٹھ
جی موجود ہیں اور پھر شمشاد بائی نے ان دونوں کو بتایا کہ ”اب مجرا نہیں ہوگا“ وہ حیران
تھے کہ کس قسم کے لوگ جن کی کوئی خاص وجہ بھی نظر نہیں آئی، پھر ہمارے لیے کھانے کا
اہتمام اور اس کے بعد طشتری میں پان پیش کیے اور مقبول صابری کی خواہش اور ملاقات اور
اس میں گفتگو اور شمشاد بائی کی بیٹی وہ انگلینڈ میں رہتی تھیں اور وہ لاہور میں ملنے
آئی ہوئی تھی خیر وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے اسد یا مجھے کہا کہ ”بیٹی کی تصویر شائع کرادیں“
میں نے کہا کہ ”شائع ہو جائے گی“ یہ تھی۔ امام کعبہ کی امامت میں نماز اور مقبول صابری،
اسد امانت علی خان اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ ایک یاد گار نہ بھولنے والا واقعہ۔
کوئی تبصرے نہیں