غزل
ِ
ہنر اپنا سبھی نے آزمانے کے لیے صاحب |
دھرے ہیں چہرے خانوں پر دکھانے کے لیے صاحب |
پُرانی سب کتابیں لوگ اکثر بیچ دیتے ہیں |
پرانے وقت کی یادیں بھلانے کے لیے صاحب |
ہمارے ہاتھ کا لقمہ بھی، ہم سے اس نے چھینا ہے |
ہمارا صبر شاید آزمانے کے لیے صاحب |
چمن سارے کا سارا آپ نے ویران کر ڈالا |
بس اپنا صحن پھولوں سے سجانے کے لیے صاحب |
سجا رکھا ہے دامن میں نے اپنا غم کے پھولوں سے |
کوئی تازہ بتازہ زخم کھانے کے لیے صاحب |
ملاوٹ سے ہمیشہ پاک رکھتا ہوں میں لہجے کو |
فقط معیار کچھ اپنا بنانے کے لیے صاحب |
اگر گھر آئے دشمن اس کو بھی عزت سے ملتے ہیں |
بھلی رسمیں بزرگوں کی نبھانے کے لیے صاحب |
ہمارے ہاتھ کاٹے وقت کے سلطان نے ساگر |
ہمیں اوقات اپنی پھر دکھانے کے لیے صاحب |
کوئی تبصرے نہیں