ڈاکٹر علی یاسر .... شعروسخن کا ایک دلکش پھول



تحریر:صدام ساگر

ڈاکٹر علی یاسر عہدِ حاضر کا ایک ایسا نام تھا جس نے بطور شاعر، ادیب، محقق، نقاد، مترجم، ریڈیو ،ٹی وی رائٹر اور اینکر پرسن کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ 13 دسمبر1976 کو گوجرانوالہ کے ایک گاؤں  کوٹلی صاحبو میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا امیر علی ساتھی المعروف ” بابا بِیر دین“ جو تقسیم ہند کے وقت اپنے سارے قبیلے کو قربان کر کے اور لُٹ پِٹ کے لدھیانہ سے پاکستان آئے ، پنجابی زبان کے بہت اچھے شاعر تھے اور انہیں اُردو، فارسی، پنجابی کلاسک شاعری حفظ تھی۔ ڈاکٹر علی یاسر اپنے پہلے شعری مجموعہ ”ارادہ“ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ ” میرے دادا جان نے ہیر رانجھا کا قصہ ایک گیت میں منظوم کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا۔ ان کا یہ گیت متعدد معروف گلوکاروں نے گایا بھی۔ میرے دادا ہی کی نگاہِ گوہر شناس نے میرے شاعرانہ مزاج کو دریافت کر کے مجھے شعر و سخن کا شیدائی بنا دیا تھا۔ ابتدا میں میرے والدین میری شاعری پر اعتراض تو کرتے لیکن دادا کی وضاحت آمیز بحث انہیں خاموش کرا دیتی تھی۔ “ دادا کی حوصلہ افزائی نے ان کی طبیعت میں شعر فہمی اور روانی کا تسلسل قائم کیا۔



ڈاکٹر علی یاسر نے اپنی شاعری کا آغاز 1990 سے کیا اور انتہائی کم وقت میں ادبی حلقوں میں اپنی مضبوط پہچان اور جدا رنگ قائم کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ انہوں نے عروضی محاسن اور شعر کے فنی و تکنیکی معاملات اسلم راہی سے سیکھے۔ ان کا پہلا شاعری مجموعہ 2007 میں ”ارادہ“ کے نام سے منظرِ عام پر آیا جبکہ 2016 میں ان دوسرا مجموعہ ”غزل بتائے گی“ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جسے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔ ان کی زندگی میں ڈاکٹر فرحت عباس کے شائع ہونے والے مضمون سے اقتباس شامل کرتا چلوں کہ ” غزل بتائے گی “ میں کئی زمینیں اور متنوع موضوعات ڈاکٹر علی یاسر کی قدرتِ کلام کی دلیل ہیں۔ مشکل بحروں اور قافیوں میں شعر نکالنا اسے پسند ہے اور یہی اس کی کامیابی کا انداز بھی ہے۔ عام آدمی کے مصائب و مسائل کو انہوں نے بڑی ندرت سے شاعری کا حصہ بناےا ہے۔ اپنی شاعری میں وہ برملا اپنے عقیدے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ سرکارِ دوعالم اور ان کی آلِ اطہر سے بے تحاشا مودت رکھنے والے علی یاسر کئی جگہ پر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ بحروں کو توڑنے اور نئے اوزان بنانے کا تجربہ بھی اس کی فنی پختگی کو ظاہر کرتا ہے۔“ وہ اپنے جذبات و احساسات میں اس قدر مستقل مزاج تھا اس شعر کے مصداق:

تجھے یہ سن کے یقینا خوشی ہوئی ہو گی
میں بے وفا ہوں مگر مستقل مزاج نہیں



ڈاکٹر علی یاسر میڈیا سے بھی وابستہ رہے اور ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرامز میں شریک ہوتے رہے اور ان کی میزبانی کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے لیے انہوں نے بہت سی دستاویزی فلموں کے اسکرپٹس اور نغمے تحریر کیے۔ ان کی بطور مترجم اگر بات کی جائے تو انہوں نے انگریزی اور پنجابی سے اُردو میں تراجم کیے جن میں ”چین کی محبت کی نظمیں“ اور ”نوبل لیکچر“‘ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر علی یاسر، علامہ اقبال یونیورسٹی سے جُز وقتی اُستاد کے طور پر بھی وابستہ رہے۔ اس کے علاوہ وہ اکادمی ادبیات اسلام آباد جیسے بڑے ادارے میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر خوش اسلوبی سے کام کرتے رہے ، وہ سچی اُمید کی لگن میں مگن اپنی منزلوں کا راستہ خود تعین کرتے ، وہ زمیں پر بسنے والی مخلوق کا اس قدر خیر خواہ نظر آتے تھے کہ دوسروں کی خوشی کے لیے اپنے غم کا نوحہ سینے میں دفن کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ دیتے کہ کسی روز ایسا بھی ہوگا ۔

ہمیں لکھنا ہے زمیں والوں کے غم کا نوحہ
آسمانوں سے کسی روز قلم اُترے گا

اُسے دن کے اُجالوں میں رہنا اچھا لگتا تھا مگر وہ دن میں خواب نہیں دیکھتا تھا ، اُسے رات کی چاندنی میں ستاروں سے دل لگی کرنا، چاند سے باتیں کرنا پسند تھی۔ وہ جب غزل کہتا تھا تو لفظ اُس کے ہونے کی گواہی دیتے ۔ وہ ایک محبت پرور آدمی تھا ہر کسی سے ہنسی خوشی سے ملنا اس کی خوشگوار شخصیت کا خاصہ تھا۔ ِ وطن کی محبت سے بھی آشنا تھا اُس کی آنکھوں میں وطن کی محبت کا نقشہ یوں اُبھرتا تھا۔

ہم نے آنکھوں میں رکھا پاک وطن کا نقشہ
کتنے طوفاں اسی تعویز سے ٹل جاتے ہیں

جذبات واحسات کا خوبصورت اظہار، لفظوں کا آہنگ، بیان میں روانی، خیال میں نیا پن اور بڑی سے بڑی بات کو آسان لفظوں میں بیان کرنا ڈاکٹر علی یاسر کی شاعری کی پہچان تھی ، وہ اپنے فن کے اعتبار سے اتنا قد آور تھا کہ اُس کے مقابل اُس کی عمر بہت کم تھی مگر اُس کے خیالات کی بلندی اور فنی پختہ کاری کا ایک اپنا معیار تھا ، وہ عروض کے متعلق بھی کافی معلومات رکھتا تھا۔اس کالم کے دوران عہدِ حاضر کے ممتاز شاعر جان کاشمےری بتاتے ہیں کہ” ڈاکٹر علی یاسر فنِ عروض پر لیکچر بھی دیتا رہا ، وہ ایک ایسا سہ پہلو انسان تھا جو ماہرِ عروض بھی تھا نظامت کاری میں بھی ید طولیٰ رکھتا تھا اور شعر کی نزاکتوں سے بھی کماحقہُ شناسا تھا، وہ گوجرانوالہ کی سرزمین میں اُگنے والا ایک ایسا دلکش پھول تھا جس کی خوشبو نہ صر ف پاکستان کے اطراف اکناف میں روز بروز پھیل رہی تھی بلکہ اس کی خوشبو کا دائرہ دوسرے ممالک کو بھی اپنے حصار میں لے رہا تھا جو گوجرانوالہ کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی حیثیت رکھتا تھا۔



ڈاکٹر علی یاسر گفتگو اور سیرت وکردار کے لحاظ سے بھی اپنی مثال آپ تھا۔ اُس کے بات کرنے کا انداز بہت رسیلا تھا۔ انہوں نے ”2008 اور 2010 میں اہلِ قلم ڈائریکٹری مرتب کی جبکہ ان کی دیگر زیر طبع کتب میں ”کلیات منطور عارف“ اور ”اُردو غزل میں تصورِ فنا وبقا “ کے علاوہ نعتیہ کلام اور بچوں کی شاعری شامل ہیں۔انہوں نے اپنا آخری کلام بزمِ شعرو ادب کی ایک تقریب میں پڑھا جس کی صدارت کراچی کی معروف شاعرہ حجاب عباسی نے کی۔اس سے قبل دنیا بھر میں محبت کے عالمی دن کے موقع پر ان کی یہ غزل فیس بک کے قارئین کے لیے توجہ کا مرکز بنی۔

ثبوتِ عشق، جمالِ یقیں محبت ہے
مری سرشت میں دھوکہ نہیں محبت ہے
سب اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں یہاں
مرے خیال میں سب سے حسیں محبت ہے

محبتیں، چاہتیں اور شہرتیں سمیٹنے والا یہ شاعر 16 فروری 2020 کی درمیانی شب اسلام آباد میں برین ہمیرج کے باعث وفات پاگئے ۔ ان کی تدفین ان کے آبائی گاں کوٹلی صاحبو گوجرانوالہ کے قبرستان میں کی گئی۔ڈاکٹر علی یاسر کے چلے جانے کے بعد ادبی دنیا میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا ہیں جسے پُر کرنے کے لیے اب کئی صدیاں درکار ہو ں گی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جب بھی گوجرانوالہ آتے تو جان کاشمیری کے گھر اپنے ہر لعزیز دوست عمران اعظم رضا کے ہمراہ ضرور آتے اور مجھ خاکسار کو بھی ملاقات کا شرف بخشتے۔ وہ برملا میرے بارے میں اکثر وبیشتر یہ جملہ کہتے”گوجرانوالہ کا فخر ہو اور یہ خوش آئیند بات ہے کہ ہمارے شہر میں ایک اچھا نثر نگار بھی موجود ہے۔“ آج ان کی جدائی کا صدمہ برداشت کروں تو کیسے کروں ۔ میرے خیال میں یہ صدمہ عمر بھر رہے گا جیسے شکیب جلالی اور وسیم عالم کے جوان عمر میں بچھڑ جانا اسی طرح ڈاکٹر علی یاسر کے بچھڑنے کا غم رہے گا۔وہ اس دنیا سے کوچ کرنے سے قبل اتنا ضرور جانتے تھے کہ:

مجھے روک لو میں چلا گیا تو چلا گیا
کسی طور پھر میں تمہارے بس میں نہ آؤں گا
تجھے نام کر دوں گا میں کسی کے جو ہو سکا
مری زندگی میں تری ہوس میں نہ آؤں گا

کوئی تبصرے نہیں